سیرت سرکار دو عالم ﷺاور یورپین رائٹرز (تصنیفات)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مشہور حکایت ہے کہ آپ ؓ کے پاس ایک لادین شخص حاضر ہوا، اور کہنے لگا، "یا علی ابن ابو طالب! میں اللہ کو واحدہ لاشریک نہیں مانتا۔ جبکہ آپ ؓ مانتے ہیں۔ اب آپ ؓ بتائیے کہ مجھ اور آپ ؓ میں کیا فرق ہے۔ کھانا، پینا، پہننا آپ ؓ کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے اور میرے ساتھ بھی۔ میں بھی خوش ہوں، آپؓ بھی۔ پھر مجھے آپ ؓ کے اللہ کو ماننے یا کلمہ پڑھنے کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی؟ " آپ ؓ مسکرا دیئے بڑی نرمی سے فرمایا۔ "فرض کرو کہ میدان حشر بپا ہے۔ خدا اور اس کی خدائی وہاں پہ موجود ہے۔ نہ ماننے والوں کو جہنم اور ماننے والوں کو جنت میں داخل کیا جا رہا ہے، اب تم صرف ہاں اور نہ میں جواب دو، وہاں گھاٹے میں تم ہو یا میں؟" وہ بلا تامل ہولا۔ "یقینا میں گھاٹے میں ہوں کہ اللہ کو نہیں مانتا۔" اب آپ ؓ پھر فرمانے لگے۔ "اب فرض کرو کہ بقول تمہارے کہ اللہ کا وجود نہیں۔ تو پھر کیا صورت ہوئی۔نہ تمہیں نقصان نہ مجھے کوئی گھاٹا۔" وہ بلا تامل بولا۔" بالکل درست"۔ آپ ؓ مسکرائے اور فرمانے لگے۔ "پہلی صورت میں تم گھاٹے میں تھے۔ دوسری میں ہم دونوں برابر۔ تو کیا یہ نفع کا سودا نہیں کہ ہم مان لیں کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ تاکہ کسی کو بھی نقصان گھاٹے کا احتمال ہی نہ رہے۔" وہ مشرک یہ کھلی دلیل سن کر ایمان لے آیا۔
یورپ (Europe) ایک مدت تک اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا۔ جب اس نے جاننا چاہا تو عرصہ دراز تک عجب حیرت انگیز مفتریانہ خیالات و توہمات میں مبتلا نظر آیا۔ 17 ویں صدی وسطی یورپ (Central Europe) کے دراصل "دور جدید" کا آغاز ہے۔ یورپ کی جدوجہد، سعی و کوشش اور حریت و آزادی کا "دور" اسی عہد سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارے کام کی جو چیز اس دور میں پیدا ہوئی، وہ "مستشرقین" (Orientalist) کا وجود ہے، جن کی کوشش سے کئی نادر الوجود "عربی کتابیں " و ترجمہ شائع ہوئیں۔ اس دور کی خصوصیت یہ ہے کہ محض سنے سنائے عامیانہ خیالات کے بجائے، کسی حد تک تاریخ اسلام و سیرت سرکار ﷺ کی بنیاد عربی زبان کی "تصانیف" (Works) پر قائم کی گئی۔ اس عہد میں عربی زبان کی تاریخی تصنیفات کا ترجمہ ہو گیا تھا، اس سلسلے میں سب سے پہلے ارپی نیوس (Arpineus)، مارگولیوس (Margoliouth)، ایڈورڈ پوکاک (E.Pococke) اور ہاٹنجر (Hattinger) قابل ذکر ہیں۔ آخیر 18ویں صدی یہ وہ زمانہ ہے جب یورپ کی "سیاسی قوت" (Political Power)، اسلامی ممالک میں پھیلنا شروع ہو گئی، اور جس کی وجہ سے "اورینٹیلسٹ" کی ایک بڑی جماعت پیدا ہو گئی۔ 1778ء میں ہولینڈ (Holland) نے ایک "ایشیاء ٹک" سوسائٹی قائم کی۔ اس کی تقلید میں پھر انگریزوں نے کلکتہ میں "جنرل ایشیاء ٹک سوسائٹی" اور بنگال میں 1788ء میں "بنگال ایشیاء ٹک سوسائٹی" کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد 1795ء میں فرانس نے مشرقی زبانوں (عربی، فارسی، ترکی) کا دارالعلوم قائم کیا، نتیجتاً عام یونیورسٹیوں میں عربی زبان کے پروفیسروں اور کتب خانوں کا وجود لازمی سمجھا جانے لگا۔ "سیرت و مغازی" کی جو کتابیں مسلمانوں کے پاس محفوظ تھیں، وہ ایک ایک کر کے 19ویں صدی کے اختتام تک یورپ میں چھپ چکی تھیں، اور اکثر و بیشتر کا "یورپین" زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا تھا۔ سب سے پہلے رسک (Reiske) المتوفی 1774ء نے تاریخ ابوالفداء مع ترجمہ لاطینی و حواشی 5جلدوں میں شائع کی۔ 1809ء میں کیپٹن اے متھیوس (A.N.Mathews) نے کلکتہ سے "مشکوۃ المصابیح" کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔ 1856ء میں وان کریمر (Vonkramer) نے کلکتہ میں محمد بن عمر واقدی کی کتاب "المغازی" طبع کرائی۔ 1860ء میں ابن ہشام کی مشہور تصنیف "سیرت الرسولؐ" کی کوٹنگن (Cottingen) سے اشاعت کی۔ 1879ء تا 1892ء، 14سال کی محنت کے نتیجے میں "طبری" کی مشہور اور نادرالوجود تاریخ، بارتھ (J.Barth) اور نولدیکی (Noldeke) وغیرہ نے شائع کی۔ مشہور و معروف جرمن مستشرق پروفیسر سخاؤ(Sachau)کی خاص کوشش و دیگر 7 مستشرقین کی مدد سے "ابن سعد" کی عظیم الشان اور نادرالوجود "طبقات"، جس سے زیادہ مبسوط، سیرت نبویﷺ کی کوئی تصنیف نہیں۔ تقریباً 1900ء تک ایک ایک جلد کر کے Episodewise "لیڈن " سے شائع ہوتی رہی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مستشرقین کی شائع کردہ کتب سیرت و تراجم سے 2فائدے حاصل ہوئے۔ پہلا یہ کہ مذہبی اشتعال انگیزی کا کسی حد تک خاتمہ ہوا، دوسرا یہ کہ ریسرچ و تحقیق کا شوق بیدار ہوا۔ اوکسفورڈ کے ایک مستشرق کے اعترافی الفاظ ملاحظہ کریں۔ "محمد ﷺ کے سوانح نگاروں کا ایک وسیع سلسلہ ہے، جس کا ختم ہونا نہ ممکن ہے۔ لیکن اس میں جگہ پانا قابل فخر ہے۔"
یورپین رائٹرز کی حقیقت: سب سے اہم اور بنیادی چیز ہمارے ذہن میں کلیئر ہونی چاہیے، کہ "مستشرقین" کا مقصد تحقیق و تدوین آخر کیا ہے؟ مستشرقین کی ساری خدمات کا مقصد اپنے مخصوص "ٹارگٹ" کا حصول رہا ہے، جس کا سب سے بنیادی پہلو "اسلام دشمنی" ہے۔ مستشرقین کی پوری فہرست کے اوپر اگر ہم نظر دوڑائیں، تو بظاہر وہ ہمیں بڑے عمدہ انداز میں خدمت دین کرتے نظر آتے ہیں، لیکن دراصل حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ اپنی تحریروں کے دوران "باریک پیرائے" میں بنیادی عقائد اسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
مستشرقین کا سب سے زیادہ Focus "سیرت و تاریخ" کی کتابوں پر ہے، مثلاً مغازی، واقدی، سیرت ابن ہشام، سیرت محمد بن اسحاق، تاریخ طبری وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم شخص سرکار ﷺ کی سوانح عمری مرتب کرنا چاہے گا، تو عام گمان یہی ہو گا کہ اس کو "تصنیفات سیرت" کی طرف رجوع کرنا چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیرت کی تصنیفات میں سے ایک بھی ایسی نہیں جو "استناد" کے لحاظ سے بلند رتبہ ہو۔ دوسری طرف سرکار دو عالم ﷺ کی سوانح عمری کے یقینی (Definitely) واقعات وہ ہیں، جو حدیث کی کتابوں میں بہ روایات صحیحہ منقول ہیں۔ لیکن "یورپین رائٹرز" سرمایہ حدیث سے بالکل بے خبر ہیں۔
ایک اور اہم بات ذہن میں رکھ لیں کہ یورپ کے اصول تنقیح شہادت (تحقیق) اور اصول تنقیح میں سخت اختلاف ہے۔ یورپین رائٹرز اس بات سے بالکل بے غرض نظر آتے ہیں کہ راوی صادق ہے یا کاذب (False)؟، اس کے اخلاق و عادات کیا ہیں؟، حافظہ کیسا ہے؟ ان کے نزدیک یہ تحقیق نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی شاید ضروری ہے۔ وہ صرف اور صرف یہ دیکھتے ہیں کہ راوی کا بیان بجائے خود، قرائن اور واقعات کے تناسب سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟
دوسری طرف "محدثین" اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ خود روایت کی کیا حالت ہے، بلکہ سب سے پہلے وہ دیکھتے ہیں کہ "اسمائے رجال" کے دفتر تحقیقات میں اس شخص کا نام "ثقہ" (Trust) لوگوں کی فہرست میں درج بھی ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو پھر "محدثین" کے نزدیک اس کا بیان بالکل نا قابل اعتبار ہے۔