یہاں بھی دنیا بدل گئی تھی، جدھر نظر جاتی، ہر طرف مسجد نظر آتی، اندر ہی اندر سوال و جواب شروع ہوئے، جواب تو کوئی تھا نہیں بس فیصلہ سننے کا منتظر تھا

 یہاں بھی دنیا بدل گئی تھی، جدھر نظر جاتی، ہر طرف مسجد نظر آتی، اندر ہی اندر ...
 یہاں بھی دنیا بدل گئی تھی، جدھر نظر جاتی، ہر طرف مسجد نظر آتی، اندر ہی اندر سوال و جواب شروع ہوئے، جواب تو کوئی تھا نہیں بس فیصلہ سننے کا منتظر تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:350
مسجد نبویؐ ایک بار پھر سامنے تھی، لیکن یہاں بھی دنیا بدل گئی تھی، جدھر بھی نظر جاتی، ہر طرف مسجد ہی پھیلی ہوئی نظر آتی تھی۔چونکہ مسجد میں نمازمغرب کے بعد بہت زیادہ لوگ بیٹھے رہتے ہیں یا روضۂ رسولؐ کی زیارت میں مصروف ہوتے ہیں، وہاں تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔ سوچا کہ عشاء کی نماز کے بعد ایک بار پھر اپنے نہ گنے جانے والے گناہوں اور منافقتوں کا بوجھ دل پر لیے ان کے دربار میں مجرم بن کر پیش ہو جاؤں گا۔ جہاں مجھے ان کے حضور اس بات کا اقرار کرنا تھا کہ میں اس بار بھی خالی ہاتھ نہیں آیا تھااورپہلے سے بھی کہیں زیادہ گناہ اپنے ساتھ سمیٹ لایا تھا۔مجھے یہ بھی کہنا تھا کہ ”بڑے قرض ہیں میرے رب کے اور آپ ؐکے مجھ پر۔ اور آپؐ کی زیارت کے توسط سے جو رحمتیں اور شفقتیں مجھ تک پہنچی ہیں ان کا میں اقرار تو کرتا ہوں لیکن شاید حساب نہ دے سکوں کیونکہ میری طرف سے انصاف کے پلڑے میں ڈالنے کے لیے کچھ بھی تو نہیں ہے۔“
عشاء کی نماز میں ابھی وقت تھا سوچا اس دوران مسجد کے باہر کا چکر لگا لیتے ہیں۔ میرے ذہن میں 10 برس پہلے والی مسجد ہی تھی لیکن یہاں تو بعد میں گویا انقلاب ہی آ گیا تھا، مسجد اپنی تمام تر سابقہ حدود کو عبور کرتی پتہ نہیں کہاں سے کہاں جا پہنچی تھی۔ ہم دونوں مسلسل چلتے رہے تو یہ احساس ہوا کہ پورا چکر اب اتنی آسانی سے نہیں لگ سکے گا، اس وقت تک ہم نصف فاصلہ طے کر آئے تھے۔ سوچا کہ اگر واپس گئے تب بھی اتنا ہی چلنا پڑے گا جتنا آگے باقی رہ گیا تھا، اس لیے چلتے ہی گئے حتیٰ کہ جب اپنے مقام روانگی تک واپس پہنچے تو عشاء کی نماز شروع ہو گئی تھی۔ مسجد میں گئے، نماز کے بعد میں نے تھوڑا انتظار کیا اور تھکے تھکے قدم اٹھائے ان کے حضور جا پہنچا۔ مجھے سر جھکانے کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ وہ تو پہلے ہی جھکا ہوا تھا۔
ایک دفعہ پھر اندر ہی اندر سوال و جواب شروع ہوئے، جواب تو کوئی تھا نہیں،بس فیصلہ سننے کا منتظر تھا۔ آس پاس کھڑے لوگوں کی مسلسل آہ و زاریاں اور دعاؤں کی آوازیں ماحول کو بہت جذباتی بنارہی تھیں، جب آنسو ختم ہو گئے تو میرا وقت بھی ختم ہو گیا، وہاں کھڑے ہوئے خادم نے آگے بڑھنے کا اشارہ دے دیا اور میں نکل آیا۔ اس کے بعد تو میں نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ جہاں بھی ذرا سا موقع ملتا خاموشی سے رحمت اور شفقت کے طلب گاروں کی قطار میں جا کھڑا ہوتا۔
مدینے کی روایت کے مطابق شہر میں بڑا ہی سکون تھا، موسم بھی قدرے بہتر تھا، ایک رات بارش ہوئی تو خنکی کافی بڑھ گئی۔ ایسے موسم میں مدینہ شہر میں گھومنے پھرنے کا اپنا ہی ایک مزہ تھا۔ قریبی شاپنگ مال پر گئے لیکن کوئی چیز خریدنے کو دل ہی نہ مانا۔ فرزانہ اصرار بھی کرتی رہی کہ گھر کے لیے کچھ سامان لے چلتے ہیں،لیکن گھر میں حالیہ تباہی کی وجہ سے ناجانے کیوں میرا دل اس بری طرح ٹوٹا تھا کہ کچھ بھی خریدنے کو طبیعت مائل نہ ہوئی۔ پہلے 25سال تک یہی سب کچھ تو جمع کرتے رہے تھے اور اس ”سب کچھ“ کو ختم ہونے میں ایک لمحہ بھی نہ لگا تھا۔ اس لیے سوائے روایتی تحفے تحائف اور کھجوروں کے کچھ بھی ساتھ نہ لیا۔
طالب ہمارا پیچھا کرتا ہوا مدینہ تک بھی آن پہنچا تھا، اور ہروقت ہاتھوں میں کھانے پینے کی چیزیں اٹھائے وہ ہمارے ہوٹل کے ارد گرد ہی منڈلاتا پھرتا تھا اور اسے جب بھی موقع ملتا ہمارا ریفریجریٹر تازہ پھلوں، جوس اور سینڈوچ وغیرہ سے اس بری طرح بھر دیتا کہ فریج کو بھی شاید سانس لینا دشوار ہو جاتا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -