پاکستانیوں کیلیے بھارتی ویزے میں اجازت3 شہروں تک محدود ہوتی ہے، میرے پاس اقوام متحدہ کا پاسپورٹ تھا اس لیے مجھ پر پابندیاں لاگو نہیں ہوتی تھیں 

 پاکستانیوں کیلیے بھارتی ویزے میں اجازت3 شہروں تک محدود ہوتی ہے، میرے پاس ...
 پاکستانیوں کیلیے بھارتی ویزے میں اجازت3 شہروں تک محدود ہوتی ہے، میرے پاس اقوام متحدہ کا پاسپورٹ تھا اس لیے مجھ پر پابندیاں لاگو نہیں ہوتی تھیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:181
 عام طور پر پاکستانیوں کے لیے جاری کئے گئے بھارتی ویزے میں اجازت3 شہروں تک محدود ہوتی ہے۔ اور سیاح کو اس شہر میں پہنچتے ہی پولیس اسٹیشن جا کر اپنی آمد کی اطلاع دینا ہوتی ہے، میرے پاس چونکہ اقوام متحدہ کا جاری کردہ پاسپورٹ تھا۔ اس لیے مجھ پر یہ پابندیاں لاگو نہیں ہوتی تھیں اور میری نقل وحرکت پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی، یہ میرے لیے ایک بہت بڑی سہولت تھی۔ لہٰذا میں نے اس آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تاج محل آگرہ جانے کا پروگرام بنا لیا۔ تاج محل واقعی ایک عجوبہ ہے اور یہ دنیا کے 7 عجائبات کی فہرست میں شمولیت کا حق دار بھی ہے۔ اس کی عظمت اور عمارت بہت ہی دلکش ہے۔ یہ دریائے جمنا کے کنارے پر واقع ہے۔
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل 
ساری دنیا کو محبت کی نشانی  دی ہے
  یہ حسیں تاج محل ایک شہنشاہ، شاہ جہاں کی طرف سے اپنی بیوی ممتاز محل کے ساتھ محبت کی نشانی ہے۔ تاج محل سے باہر نکل کر آس پاس کے عسرت زدہ ماحول، اور آگرہ شہر کی زبوں حالی دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی۔معاً مجھے ساحر لدھیانوی کی نظم”تاج محل“ یاد آ گئی۔
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارا یہ محل
یہ منقش درودیوار، یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
مجھے شاعری سے کسی قدر دلچسپی نہیں لیکن سچائیوں کی پیام بر شاعری ہر حساس انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ مجھے یہاں پہنچ کر اس نظم کی تحریر کی وجہ سمجھ آئی۔ بہرحال برسبیلِ تذکرہ اس گفتگو کے بعد اپنے دورے کی مصروفیات کی طرف لوٹتا ہوں۔
اقوام متحدہ کی ٹیم کے ساتھی بونی فیس فرنانڈیس (جن سے میری دوستی ریاض میں قیام اور کام کے دوران ہوئی تھی) اور ان کی بیوی نے اپنے گھر میں ایک پُرتکلف ڈنر پارٹی میں آنے کی دعوت دی۔ بعد میں جب گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ لوگ مجھ سے ریاض کی زندگی بارے تجسس بھرے سوالات پوچھتے رہے۔ مجھے میرے ایک اور دیرینہ دوست اور سعودی عرب میں مکہ پروجیکٹ میں میرے ساتھی سید سعید شفیع نے بھی کھانے پر بلا بھیجا۔ بھارت کے اس دورے کے آخری مرحلے پر میں نے وسیمہ اور بچوں کے لیے تحفے تحائف کی کچھ خریداری کی اور لاہور کی پرواز پر بیٹھ گیا۔ میں چاہتا تھا کہ ریاض جانے سے قبل میں ایک دفعہ اپنے گھر والوں کو بھی مل لوں۔
2005ء میں ایک دفعہ پھر مجھے بھارت جانے کا موقع ملا۔ مجھے علم ہوا تھا کہ اولڈعلیگز کا ایک وفد علی گڑھ یونیورسٹی جا رہا تھا۔ میرے خیال میں میرے لیے اُس قدیم اور عظیم درسگاہ اور ادارے کو دیکھنے کا یہ ایک نادر موقع تھا، جس نے مسلمانوں کو معاشرے میں انفرادی طور پر  آگے بڑھنے کا ایک شعور اجاگر کیا تھا۔ اور پھر آگے چل کر یہاں کے طلبہ نے تحریک پاکستان میں ایک اہم اور بھر پور کردار ادا کیا تھا۔     اس بار میں وسیمہ کو بھی ساتھ لے گیا تھا۔ اس دورے کا اہتمام اقبال شفیع صاحب نے کیا تھا جو ایک ریٹائرڈ ڈپلومیٹ ہیں جو علی گڑھ یونیورسٹی میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد وہاں پروفیسر تھے۔ انھوں نے ہی سب کے لیے ایسیویزے کا انتظام کیا تھا جس میں شہر شہر جا کر پولیس کو رپورٹ نہیں کرنا پڑتی تھی جو ہمارے لیے ایک بہت بڑی سہولت تھی۔  (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -