کافی دولت کما لی، 3 سال بعد ہی میں نے اپنے کاروبار کو وسیع کر لیا مزید مشینیں او ر آلات خرید لیے، پھر میرا اصلی امتحان شروع ہوگیا
مصنف:ڈاکٹر ڈیوڈ جوزف شیوارڈز
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:168
فرانسس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”پھر میں نے کالج جانے کا فیصلہ کر لیا لیکن میرے پاس اخراجات کے لیے رقم نہ تھی، لہٰذا میں نے ایک چھاپہ خانے میں ایک جز وقتی کاریگر کی حیثیت سے ملازمت کر لی۔ میں نے اس چھاپہ خانے میں ہر قسم کا کام کیا، میں نے چھاپہ خانے کی صفائی کی، مشینوں کی صفائی کی، مشینوں پر کام کیا، گاہکوں کو سامان پہنچا یا اور ہر قسم کے تمام کام سرانجام دئیے۔“
فرانسس نے اپنی داستان سناتے ہوئے کہا ”جب میں نے اپنے کالج کی تعلیم ختم کی تو مجھے یہ جز وقتی ملازمت کرتے ہوئے 6 سال گزر چکے تھے اور پھر میں نے اپنا ایک ذاتی چھوٹا سا چھاپہ خانہ کھولنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس وقت تک میرے پاس2 ہزار ڈالر جمع ہوچکے تھے اور اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے یہ رقم کافی اور مناسب تھی۔ ابتداء میں مجھے بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں۔ میں نے اپنا کاروبار ایک مضافاتی علاقے میں شروع کیا جہاں کے لوگوں کے لیے میں ایک اجنبی تھا۔ لیکن اپنے کاروبار کا آغاز کے ساتھ ہی مجھے اپنے باپ کی وہ نصیحت یاد آگئی جس کے ذریعے اس نے مجھے ہر حال اور ہر قیمت پر اپنے وعدے کی پاسداری پر مبنی رویہ اور طرز عمل اپنانے کو کہا تھا۔“
فرانسس کہتا چلاگیا، ”اور اپنے باپ کی اس حکیمانہ نصیحت کو میں نے اپنے کاروبار کے ہر پہلو میں اپنا لیا۔ گاہک کے ساتھ کیے گئے وعدے کو میں ہر حال میں نبھاتا۔ اگر گاہک کی مرضی کے مطابق کام تیار نہ ہو پاتا تو میں پھر کسی اضافی معاوضے کے بغیر ہی اس کام کو دوبارہ تیار کر دیتا۔ اس موقع پرفرانسس نے مجھے بتایا کہ وہ ابھی بھی اس اصول پر کاربند ہے۔ ایک ماہ قبل اس کے چھاپہ خانے نے ایک لاکھ اشتہار تیار کیے لیکن اس اشتہار کا رنگ گاہک کی مرضی کے مطابق نہ تھا، لہٰذا اس نے ایک لاکھ اشتہار دوبارہ تیار کر دیئے۔“
فرانسس نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھا: ”سامان تیار کرنے کے ضمن میں مقررہ تاریخ اور وقت کے متعلق میں نے ہمیشہ اپنے وعدے کو نبھایا، اس حوالے سے مجھے اپنی نیند بھی قربان کرنا پڑی تو میں نے قطعاً پرواہ نہ کی۔ میں نے اپنے ہر وعدے کو نبھایا۔ اسی اثنا میں، میں نے کافی دولت کما لی اور اپنا کاروبار کا آغاز کرنے کے 3 سال بعد ہی میں نے اپنے کاروبار کو وسیع کر لیا اور مزید مشینیں او ر آلات خرید لیے۔ اور پھر میرا اصلی امتحان شروع ہوگیا۔“
میں نے پوچھا:”وہ اصلی امتحان کیا تھا؟“
اس نے جواب دیا: ”ایک دفعہ ہفتہ واری تعطیل کے موقع پر میرے چھاپہ خانے میں آگ لگ گئی اور سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا۔ انشورنش کمپنی کے ذریعے صرف میرا آدھا نقصان پورا ہوا اور پھر میرا بال بال قرض کی دلدل میں پھنس گیا۔“
میں نے پوچھا ”تم نے اس صورت حال سے نجات کیسے حاصل کی، کیا تم نے اپنے کاروبار کو دیوالیہ قرار دے دیا۔“
اس نے جواب دیا: نہیں، قطعی نہیں، میرے سب دوستوں اور کاروباری ساتھیوں نے مجھے یہی مشورہ دیا لیکن میں نے ان سے کہا ”یہ تمام قرضے میں نے اپنے کاروبار کے نام پر لیے تھے اور مجھے ہر حال اور ہر قیمت پر اپنے وعدوں کا پاس کرنا تھا۔“
یہ بات اس قدر آسان نہیں تھی لیکن بالآخر میں نے اپنے تمام قرضے واپس کر دیئے اور کاروبار کا دوبارہ آغاز کر دیا۔ اس وقت سے آج تک یہ ایک نہایت ہی مشکل کا م تھا لیکن یہ ایک ایسا مشکل کام تھا جو میرے لیے نہایت آسان ثابت ہوا تھا۔“
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔