سیاست، احتجاج اور مہنگائی

اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ روک دیا ہے۔ موجودہ حکومت اپنے ابتدائی مہینوں میں عوام پر مہنگائی کے جتنے ڈرون حملے کر چکی ہے، اُن کے بعد اب عوام میں مزید حملے برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی۔ حکومت مختلف اداروں میں اپنے قدم جمانے کے باوجود اس وقت تک غیر مستحکم رہتی ہے، جب تک وہ عوام کو معاشی ریلیف نہ دے۔ دنیا میں کوئی بھی ایسی مثال نہیں کہ عوام کو بد حال اور فاقوں پر مجبور کر کے کسی حکمران نے سکھ کا سانس لیا ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف اب اس سلسلے میں وزارت خزانہ کے آگے بند باندھ رہے ہیں، تاہم صرف یہی کافی نہیں کہ اشیاءکی قیمتیں بڑھنے نہ دی جائیں یا بڑھائی نہ جائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو معاشی دلدل سے نکالا جائے۔ ایک طرف حکومت کی قیمت اور ٹیکس بڑھاﺅ پالیسی اور دوسری طرف ناجائز منافع خوری نے عوام کی روز مرہ ضروریات کو ایک خواب بنا دیا ہے۔ معاشی محرومی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ سفید پوش طبقہ بھی غربت کی سطح پر چلا گیا ہے۔ محدود آمدنی والوں کے لئے نام نہاد سستے بازاروں کے ذریعے ریلیف دینے کے منصوبے انتہائی ناقص ہیں۔ ان سے پہلے کبھی فائدہ ہوا ہے اور نہ اب ہوگا۔ حکومت اپنی معاشی پالیسی کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ ٹیکس نیٹ کو بڑھائے، صرف ٹیکس کو ہی نہ بڑھاتی رہے، یہ وہ شعبہ ہے جس پر اگر حکومت نے فوری توجہ نہ دی تو آنے والے دنوں میں سیاستدانوں کے لئے عوام کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا، تاوقتیکہ وہ مہنگائی کو اپنی سیاست کی بنیاد نہیں بنائیں گے۔
اس بات کے اشارے ابھی سے ملنا شروع ہو چکے ہیں۔ تحریک انصاف نے 22 دسمبر کو لاہور میں مہنگائی کے خلاف ایک بڑے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے، جبکہ تحریک انصاف کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اسی ماہ کے آخر میں لاہور سے مہنگائی اور کرپشن کے خلاف ریلی کی نوید سنا دی ہے۔ حکومت ڈرون حملوں کے حوالے سے تو سو تاویلیں گھڑ سکتی ہے، مگر مہنگائی کے حوالے سے شاید اس کی کوئی تاویل کام نہ آئے کیونکہ بقول ژاں پال سارتر دنیا میں سب سے خطرناک تحریک وہ ہوتی ہے جس کی بنیاد مہنگائی اور لوگوں کی محرومیاں ہوں۔ موجودہ حالات ایسی تحریک کے لئے بالکل ساز گار ہیں۔ حکومت معاشی شعبے میں بالکل ناکام نظر آتی ہے۔ روز گار کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور نہ ہی اشیائے ضروریہ کی رسد بہتر بنائی جا رہی ہے تاکہ قیمتوں میں کمی آ سکے۔ یہ کہہ دینا کہ معیشت کو بہتر بنانے کے لئے مزید سخت فیصلے کرنے پڑیں گے، زمینی حقائق سے لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر تو مزید سخت فیصلوں سے مراد ٹیکسوں اور قیمتوں میں اضافہ ہے یا پھر عوام کے جسم و جاں کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے دی جانے والی سب سڈی کا خاتمہ ہے تو پھر حکومت کے مالیاتی مینجروں کے لئے دعائے خیر ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ کیسے سخت فیصلے ہیںجو صرف غریبوں کو ذبح کرتے ہیں۔ آخر سخت فیصلوں کا رخ مراعات یافتہ طبقوں کی طرف کیوں نہیں کیاجاتا۔ یہ تاجر دوست حکومت آخر تاجروں کو اس بات پر آمادہ کیوں نہیں کرتی کہ وہ معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں، صرف جی ایس ٹی ٹیکس دے کر احسان جتانے سے بات نہیں بن سکتی، یہ ٹیکس تو عوام دیتے ہیں، جن کی روزانہ کروڑوں روپے کی آمدن ہے، اُن سے انکم ٹیکس کتنا لیا جا رہا ہے؟ انہیں ٹیکس نیٹ میں کون اور کب لائے گا؟ یہ سخت فیصلے کون کرے گا؟ ان فیصلوں کی عدم موجودگی میں صورت حال مرے کو مارے شاہ مدار والی ہی رہے گی اور غریب پربالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر اسے مزید ادھ موا کیا جاتا رہے گا۔
وزیر اعظم محمد نوازشریف نے حال ہی میں ایک تقریب کے دوران یہ انکشاف کیا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے کرتے دل کے مریض ہو گئے ہیں۔ اب پتہ نہیں ڈار صاحب معیشت کی بہتری کے غم میں درد دل کا شکار ہوئے ہیں یا پھر اُنہیں آئی ایم ایف کے دباﺅ نے اس حال تک پہنچایا ہے۔ جس ملک میں لوگ غربت اور بے روز گاری کے ہاتھوں خود کشیاں کرنے اور بچے دریاﺅں میں پھینکنے کی راہ پر چل نکلے ہوں، اُس ملک میں وزیر خزانہ کو اگر دل کا عارضہ ہو جاتا ہے تو اس میں کیا خبریت ہو سکتی ہے۔ اسحاق ڈار نے ایسا کون سا کشٹ کاٹا ہے جس کی وجہ سے عوام کو ریلیف ملا ہو۔ حکومت نے ابھی تک ایک قرضہ پالیسی جاری کی ہے اور دوسرا کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے سکیم متعارف کرائی ہے۔ جس ملک کی معیشت کو کالے دھن نے اس حال تک پہنچایا ہے، اس ملک میں مزید ایسی سکیمیں متعارف کرانا ظلم کے زمرے ہی میں آتا ہے۔ یہ لوگ جو کالا دھن بنانے کے ماہر ہیں، اپنے تمام منصوبوں میں بھی اسی بدعنوانی کو جاری رکھیں گے۔
ان کے سرمائے سے ملک میں شاید فیکٹریاں اور کارخانے تو لگ جائیں، مگر قومی خزانے میں ایک پیسہ بھی جمع نہیں ہوگا، بلکہ یہ اپنے کالے دھن سے سرکاری مشینری کا رہا سہا چہرہ بھی داغدار کر دیں گے اور کرپشن مزید دندناتی پھرے گی۔ عجیب بات ہے کہ قانون کی طاقت کو استعمال کر کے لٹیروں کی جیبوں سے لوٹا گیا مال واپس نکلوانے کی بجائے انہیں چھٹی دینے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے اور یہ امید بھی باندھی جا رہی ہے کہ اس سے ملکی معیشت کو چار چاند لگ جائیں گے۔ کرپشن کی کمائی سے چاند چڑھائے ضرور جاتے ہیں، لگتے نہیں ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف ملکی نظام پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں، آرمی چیف اپنی مرضی کا لائے ہیں، جوڈیشل ایکٹوازم کو متعارف کرانے ولے چیف جسٹس رخصت ہو رہے ہیں،ان کی جگہ دھیمے مزاج کے چیف جسٹس لینے والے ہیں، اسمبلیوں میں ان کی اکثریت ہے، اپوزیشن لیڈر ان کی حمایت میں کھڑا ہے، امریکہ نے انہیں مکمل حمایت کا یقین دلایا ہوا ہے۔ میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے خوش ہیں، نیز آئی ایم ایف مکمل طور پر مطمئن ہے، کیونکہ اس دور سے زیادہ آئی ایم ایف کو کبھی اپنی شرائط منوانے کا موقع نہیں ملا۔ بظاہر یہ تاثر بالکل مثبت اور حکومت کی فیور میں نظر آتا ہے، مگر کیا اس پر اطمینان کیا جا سکتا ہے؟ کیا عوام کے اندر جو بے اطمینانی اور ہلچل ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔؟ سطح آب پر ٹھہراﺅ دیکھ کر کیا سمندر کے اندر کلبلانے والے تلاطم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور اس سے منسلک برائیاں ہیں۔
خود حکومت کے ذمہ دار حلقے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مہنگائی نے حکومت کے امیج کو شدید متاثر کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف جو ہمیشہ زیر زمین چلنے والے طوفانوں کی بو سونگھ لیتے ہیں، مہنگائی کے عفریت کو جان چکے ہیں۔ انہوں نے اور کچھ بھی نہیں کیا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ مہنگائی پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ اُن کے حکم پر صوبے میں کئی جگہ سستے بازار بھی لگا دیئے گئے ہیں اور ضلعی انتظامیہ کے افسران اپنی نوکریاں بچانے کے لئے لیپا پوتی میں مصروف ہیں لیکن کیا اس طرح انسانوں کے وسیع و عریض سمندر کو کوئی معاشی ریلیف مل سکتا ہے؟ انتظامیہ کو بھی معلوم ہے کہ وہ کسی ذخیرہ اندوز، کسی بڑے تاجر اور کسی بروکر پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی ،کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں وہ ہڑتال کر دیں گے اور مارکیٹ میں رہی سہی رسد بھی رک جائے گی۔ آزاد معیشت میں کبھی ڈنڈے سے قیمتوںکو نیچے نہیں لایا جا سکتا، جب تک قیمتوں کو بڑھانے والے عوامل کو کنٹرول نہ کیا جائے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف حکومت بجلی کے نرخ دوگنا کر دے، ڈالر کو ایک سو دس پر لے جائے، پٹرول مہنگا بیچے، گیس کی قیمت بڑھا دے اور دوسری طرف یہ توقع رکھے کہ عام اشیاءکی قیمتیں نہ بڑھیں۔ یہ کام تو صرف الہٰ دین کے چراغ سے ہی ممکن ہے، اسحاق ڈار فارمولے تو اس کے کسی کام نہیں آ سکتے۔
عمران خان کو پچھلے کچھ عرصے سے اس تنقید کا سامنا تھا کہ وہ ساری توجہ خیبر پختونخوا پر دے رہے ہیں، دوسرا انہوں نے مہنگائی کے ایشو کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے، حالانکہ وہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس نے گھر گھر دہشت گردی پھیلا رکھی ہے۔ اب انہوں نے اس ایشو کو اپنا ایجنڈا بنا لیا ہے اور اس کی بنیاد پر ایک احتجاجی تحریک منظم کرنے جا رہے ہیں۔ یہ خالصتاً عوامی مسئلہ ہے اور اس کا جواب صرف وزیر اطلاعات پرویز رشید کے جوابات سے نہیں دیا جا سکے گا، بلکہ اس کے لئے حکومت کو فوری ایسے اقدامات کرنے ہوں گے، جن سے عوام کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ حکمران طبقے ان کی حالت سے بے خبر نہیں اور ان کے اقدامات واقعی ایک کمزور معیشت کو سہارا دینے کی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہیں۔ میں آخر میں یہ پیشن گوئی بھی کر رہا ہوں کہ آئندہ کی پاکستانی سیاست کا مرکزو محور مہنگائی و غربت ہو گا اور جو سیاسی جماعت اس ایشو کو بنیاد بنائے گی، وہ عوام کے دل جیت لے گی۔ کیا مسلم لیگ (ن) اس دوڑ سے باہر رہنے کا رسک لے سکتی ہے۔؟ ٭