جماعت اسلامی کا عوامی ایجنڈا
ملک کے کونے کونے سے لاکھوں لوگ مینار پاکستان کے اردگرد جمع ہیں،یہ کسی ایک برادری یا نسل ،کسی ایک قومیت یا علاقے کے لوگ نہیں ، مختلف زبانیں بولتے ،مگرایک دوسرے میں گھلے ملے اورہم آہنگ، ایک خواہش اور ایک مقصد میں جڑے ہوئے :اللہ کی زمین پر اللہ کا کلمہ سربلندہوجائے ۔کبھی سنہری دھوپ کی تمازت میں ،کبھی سرمئی شاموں کی خنکی میں قائدین کی تقریریں سن رہے ہیں۔نورانی چہروں اورسفید ریش والے بزرگ بھی ہیں، مگرچمکتی آنکھوں والے نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے ، خواتین کا حصہ الگ ہے جن کے ساتھ بچے بھی ہیں، ایک شہر بسا ہے، جس میں خیمے تنے ہیں اور بازار سجے ہیں۔ لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہی رہا،رش توقع سے بڑھ گیا،بڑھتا ہی گیا ،مگر کوئی ہنگامہ نہ دھکم پیل اورنہ کوئی بد انتظامی ۔جماعت اسلامی کا اجتماع عامل تنظیم ،ترتیب اور ضبط کاایک ماڈل تھا اور حسن انتظام کا ایک نمونہ۔
سراج الحق نے اپنے انقلابی ایجنڈے میں سودی نظام معیشت کے خلاف جنگ،انگریزوں کی دی ہوئی جاگیریں واپس لینے ،انتخابی نظام کی اوورہالنگ،عام آدمی کو وی آئی پی بنانے ،مزدوروں کو فیکٹریوں اور کسانوں کو زمین کی پیداوارمیں حصہ دار بنانے کا اعلان کیا۔اس عزم کابھی اظہار کیا کہ انہیں حکومت ملی تو تیس ہزارسے کم آمدنی والوں کو آٹا ،گھی ،چاول اور دالوں پر سبسڈی دیں گے اور دل ،گردے ،جگر،کینسر سمیت پانچ بیماریوں کا مفت علاج حکومت کی ذمہ داری ہوگی ۔ ساری سیاسی جماعتوں کے منشور دلآویز الفاظ اور دلکش اصطلاحات سے سجے ہوتے ہیں،لیکن جب حکومت ملتی ہے تو منشورکوالماریوں میں بند کردیتے ہیں،اس لئے منشور اور ایجنڈے کولوگ اب محض بے معنی ڈاکومنٹ سمجھتے ہیں۔ البتہ جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق کے عوامی ایجنڈے پر اس لئے کچھ اعتبار کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے حکومت میں رہ کر بھی اپنی درویشی نہیں چھوڑی ۔مجلس عمل کی صوبائی حکومت میں سینئر وزیر تھے ،مگر عام لوگوں کی طرح رہتے تھے ،کوئی ہٹو بچو نہیں، پروٹول کا کوئی حصار نہیں۔
سیاسی جماعتوں کے عوامی خدمت کے سارے وعدے اور دعوے حکومت ملنے سے جڑے ہوتے ہیں ، مگرجماعت اسلامی خدمت کے کئی کام حکومت سے باہر رہ کر بھی کررہی ہے۔ سیلاب ہو یا زلزلہ،ساری جماعت مصیبت زدہ لوگوں کا درد محسوس کرتی ہے اور اس کے کارکن متاثرہ علاقوں میں سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔اس کے بازوالخدمت فاؤنڈیشن نے سماجی بھلائی میں بڑا کام کیاہے، نادار اور بے سہارا افراد کی کفالت،مستحق طلبہ کے لئے وظائف،بے ہنر نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے ٹریننگ سینٹرز،ہسپتال ،ڈسپنسریاں اور ایمبولینس کا وسیع نظام قائم ہے۔یہ نظام اتنے شفاف انداز میں کام کرتا ہے کہ لوگ آنکھیں بند کرکے اپنی امانتیں ان کے سپرد کرتے ہیں ۔اسی طرح یتیموں کی کفالت ،قیدیوں کی بہبود،روزگار سکیم اورواٹر فلٹریشن پلانٹس کے منصوبوں پر بھی خاموشی سے کام ہورہا ہے۔ کسی دوسری سیاسی جماعت کے پاس اتنا مربوط نیٹ ورک نہیں ہے ۔سماجی خدمت کی طرح جماعت اگر دوسرے شعبوں میں بھی اسی طرح کے ماڈل بنائے تو قوم کا بڑا بھلا ہوسکتا ہے ۔اسی طرح سود ی معیشت کے خلاف جنگ کا اعلان کافی نہیں، اس کے بھی ماڈل سامنے آنے چاہئیں۔ دنیا میں غیر سودی بینکاری فروغ پارہی ہے اور کئی ماڈل کامیابی سے چل رہے ہیں ۔
یوں تو پاکستان کی ساری کمزور اکثریت عدم تحفظ کا شکار ہے ، اذیت اور ذلت کی زندگی گزار رہی ہے ،مگر اقلیتیں اس کے ساتھ اکثریت کے خوف میں بھی مبتلا رہتی ہیں۔کسی اقلیت کے ساتھ زیادتی یاوحشیانہ تشدد پر سیاسی،بالخصوص مذہبی جماعتیں بالعموم مصلحت آمیز خاموشی اختیار کئے رکھتی ہیں۔ جماعت اسلامی کی طرف سے اقلیتوں کو پاکستانی برادری قرار دینا قابل تحسین ہے،اس ضمن میں جماعت کو دوسری مذہبی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہئے،ان کی مشترکہ آواز سے خوفزدہ اقلیتوں کو کچھ تسکین ملے گی ۔ سراج الحق کرپشن کے خلاف بھی خوب بولے: ملک پر کرپٹ طبقہ مسلط ہے جس کا کوئی مذہب نہیں ،یہ انسانوں کا خون پینے والے جانور ہیں ،ان ظالموں کا یوم حساب قریب ہے۔ میاں شہباز شریف بھی کرپٹ لوگوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر قوم کا پیسہ نکلوانے کے نعرے لگاتے تھے ۔سراج الحق کو تقریروں سے آگے بڑھ کرکرپشن کے خلاف عوامی نفرت کا ابھار پیدا کرنے کے لئے جاندارحکمت عملی بنانی چاہئے ، محض عمومی بیانات دینے سے اس جمے جمائے نظام پر کوئی خراش نہیں پڑے گی ۔
متناسب نمائندگی کا انتخابی نظام جماعت کی دیرینہ خواہش ہے اس سے ووٹ ضائع نہیں ہوتے، حلقوں کے بااثرافرادکے بجائے جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں اورجن چھوٹی جماعتوں کے ووٹ ملک بھرمیں پھیلے ہوتے ہیں ان کے لئے بھی اسمبلی میں پہنچنا ممکن ہوجاتا ہے ، لیکن نقصان یہ ہوتا ہے کہ اسمبلی کے اندرکوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کرپاتی، بہت ساری چھوٹی بڑی جماعتوں کو ملا کر مخلوط حکومتیں بنتی ہیں جو ہروقت لرزتی اور لڑکھڑاتی رہتی ہیں،چھوٹے گروپ اپنے مفادات کے لئے ناز نخرے دکھاتے رہتے ہیں۔ جماعت 70ء کے انتخابات سے اس نظام پر بات کررہی ہے ،مگر کوئی صورت نہیں بن رہی ۔بہر حال اس پرمدھم مدھم بحث جاری رہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ،مگر فوکس بڑے ایشوزپر ہی رہنا چاہے۔ایسا لگتا ہے کہ جماعت کے اندر کہیں کہیں جمہوری اور انتخابی نظام سے مایوسی پائی جاتی ہے، ہوسکتا ہے پے در پے انتخابی نتائج نے یہ سوچ پیدا کی ہو اور اب وہ انقلابی جدوجہد کے ذریعے اسلامی نظام نافذ کرنے کے خواہاں ہوں، سابق امیر سید منور حسن کی تقریر اسی سوچ کی ترجمان تھی ۔ملک میں پہلے ہی کچھ لوگ دین کے نام پر قتل کررہے ہیں، قتال تو پہلے ہی جاری ہے۔سید صاحب کی تقریر نے اجتماع عام کے جاندار پیغام اور تاثر کو قدرے متاثر کیا تھا ،مگر سراج الحق کے خطابات نے اس کا اثر زائل کردیا۔جماعت سے وابستہ بڑی اکثریت جمہوری جدوجہد کے ذریعے پاکستان کو اسلامی بناکر خوشحال بنانا چاہتی ہے۔
امیر جماعت نے یہ بھی کہا کہ ہم ایسا نظام چاہتے ہیں ،جس میں عوام سوئیں توحکمران ان کی چوکیداری کریں۔ اللہ کرے ایسا نظام آئے ،مگر فی الحال تو عوام اپنے خون پسینے سے حکمران پال رہے ،اگرعوام کے حقوق کی چوکیداری کا کام حکمران بننے سے پہلے شروع ہوجائے تو عوام کا بالادست قوتوں کی گرفت سے نکلنا آسان ہوجائے گا۔ تحریک انصاف فی الحال حکومت کے ساتھ گلی محلے کی لڑائی لڑنے میں مصروف ہے ، اگر وہ احتجاجی سیاست کے ’رشیدی نسخوں ،کواسی طرح آزماتی رہی تو سنجیدہ طبقہ اس سے فاصلہ اختیار کرسکتا ہے ۔اس خلاکو وہی جماعت پر کرسکتی ہے جس کے پاس کوئی قابل عمل ٹھوس ایجنڈا موجود ہو ۔اگر جماعت عوام کے حقیقی ایشوز پر سنجیدہ اور مدلل ڈیبیٹ کا آغا ز کرے تو یہ ایک قومی خدمت ہوگی ،لیکن یہ بحث اسی وقت موثر اور نتیجہ خیز ہوگی جب جماعت عملی طور پر میدان میں عوام کے مسائل حل کرتی نظر آئے ۔ سراج الحق کا عوامی ایجنڈا بروئے کار آیاتوعوامی انقلاب کا عنوان بن سکتا ہے،خوش جمال سویرا طلوع ہوسکتا ہے ،غریب کے آنگن میں بھی آسودگی کی چاندنی اتر سکتی ہے۔