تیل سے دھرنا ” دھونے“ کا سنہری موقع
ملک بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکے بعد دیگرے ریکارڈ کمی نے مہنگائی کے ستائے عوام کو ایک بڑا ریلیف دیا ہے اور پاکستان کے عوام اس کمی پر پھولے نہیں سما رہے ۔ دہشت گردی، مہنگائی اور ”دھرنے“ میں گھری عوام کیلئے خوشی کی خبر یہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اگلے ماہ یعنی یکم جنوری 2015ءسے مزید 6 روپے فی لیٹر تک کمی کا قوی امکان ہے تاہم کچھ سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ حکومت ”دھرنے“ کے باعث عوام کو ریلیف دینے پر مجبور ہے اور اگر ایسا نہیں کرے گی تو تحریک انصاف حکومت کو ”کچا“ چبا جائے گی لیکن عوامی ریلیف کی حکومتی پالیسی سے ”دھرنا“ دھرے کا دھرا بھی رہ سکتا ہے۔
پیٹرول کی قیمت میں مزید کمی اچھی بلکہ بہت اچھی خبر ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پیٹرولم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی عالمی مارکیٹ میں ہونے والی کمی سے کہیں کم ہے اور اگر قیمتوں میں کمی کے میکنزم کو مدنظر رکھا جائے تو اس وقت فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 70 روپے سے بھی کم ہونی چاہئے کیونکہ مشرف دور میں ایک سادہ سا فارمولہ اپنایا جاتا تھا کہ فی لیٹر پیٹرول کی قیمت عالمی مارکیٹ میں فی بیرل کے مساوی ہو گی لیکن جمہوری حکومت آمر کے کسی بھی فیصلے کی توثیق نہیں کرنا چاہتی، یہ علیحدہ با ت ہے کہ بجلی کے بلوں میں وصول کی جانے والی ٹی وی لائسنس فیس بھی ایک آمر کا ہی تحفہ ہے جو بڑے زور و شور اور تواتر سے وصول کی جا رہی ہے ۔
تاریخ میں پہلی بار ”ریکارڈ“ کمی نے عوام کو یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ حکومتی ریلیف کم ہے یا زیادہ، وہ تو بس اتنا جانتے ہیں کہ کمی ہوئی ہے اور دعا کرتے ہیں کہ یہ رجحان جاری بھی رہے کیونکہ پیٹرول کی قیمت سے مہنگائی کا تعین ہوتا ہے، قیمتوں میں اضافہ ہو تو ”آلو“ کی قیمت بھی زیادہ ہو جاتی ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو تو گویا پر ہی لگ جاتے ہیں اور اگر بھاﺅ زیادہ ہونے کی بات کی جائے تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ ”باﺅ جی، پیٹرول تے ویکھو، کِنا مینگا ہو گیا اے“۔
ملکی سیاست میں ”ہلچل“ مچانے والی تحریک انصاف کے رہنماﺅں کا موقف ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی ان کے دھرنے کے باعث کی جا رہی ہے اور اگر یہ دھرنا ختم ہو گیا تو حکومت پھر اپنی ”آئی“ پر اتر آئے گی اور پیٹرول کی قیمت ایک بار پھر 100 سے تجاوز کر جائے گی اور عالمی مارکیٹ میں کمی کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچنے دیا جائے گا بلکہ ”سرکاری“ خزانے کو بھرا جائے گا، (سرکاری خزانے کی بات اپنی طرف سے کی ہے، ورنہ تحریک انصاف تو ”جیب“ کی بات کرتی ہے)۔
ایک لمحے کیلئے یہ مان لیتے ہیں کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی ”دھرنے“ کے باعث ہی کی جا رہی ہے لیکن اگر سوچا جائے تو یہ کمی دھرنا ”واش“ کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کو زندگی کے ہر شعبے میں ریلیف چاہئے وہ نواز شریف کی حکومت دے یا کسی اور کی، اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی موجودہ حکومت نے کی ہے اور کریڈٹ بھی اسے ہی ملے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ”دھرنے“ کی سیاست کرنے والے یہ کریڈٹ اپنے نام کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ جب بھی قیمتوں میں کمی کی بات کی جائے گی تو ”نواز شریف“ کی حکومت کا نام ”سنہرے“ حروف میں لکھا جائے گا۔ (اگر مزید کمی کی گئی تو، ورنہ کوئی گارنٹی نہیں)۔
دھرنوں کے ابتدائی ایام میں حکومت کی جانب سے تحمل کی پالیسی اپنانا اور پھر ”تکنیکی“ طور پر دھرنے کا مقابلہ کرنا انتہائی ”عقلمندانہ“ اقدام ہے اور اگر حکومت اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی ریلیف دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو تحریک انصاف کا ”دھرنا“ علامتی ہی رہ جائے گا اور محض ”دھاندلی“ (جو اہم ایشو تو ضرور ہے لیکن اس سے بھی زیادہ کئی اہم ایشو موجود ہیں) ہی رہ جائے گا جس پر تحریک انصاف وہ سیاست نہیں کر سکتی جو مہنگائی اور دوسرے عوامل پر کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف کا دھرنا ”دھاندلی“ سے شروع ہوا اور پھر عوامی ریلیف اور کرپشن کے ایشوز کی جانب بڑھتا گیا جس کے باعث حکومت نے ہوش کے ناخن لئے اور سوچا کہ عوامی ریلیف کیلئے کچھ کرنا چاہئے ورنہ بات بگڑ بھی سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو اس سب کے بعد ہی حکومت بہت زیادہ ”ایکٹو“ نظر آئی اور ترقیاتی کاموں کیساتھ ساتھ فوری ریلیف دینے کا عمل بھی شروع کر دیا گیا جس کی ابتدائی شکل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہے۔
عوامی ریلیف کی بات کی جائے تو وہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی تک ہی محدود ہے اور حکومت اس کے ثمرات مکمل طور پر عوام تک پہنچانے میں تاحال ناکام رہی ہے۔ ٹرانسپورٹرز کی جانب سے کرایوں میں خاطرخواہ کمی نہ ہونے کے باعث عوام ناخوش ہیں اور اس کا شکوہ بھی حکومت سے ہی کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہئے کیونکہ مہنگائی کی شرح میں کمی اور اس پر عملدرآمد حکومت ہی کاکام ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی اپنی جگہ پر ”براجمان“ ہیں اور کاروبار سے منسلک کرپٹ، ذخیرہ اندوز اور عوام کا خون چوسنے والے تاجر اس کھوج میں لگے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ”کمائی“ کیسے کی جائے۔ حمزہ شہباز شریف نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایک ایسا میکنزم بنانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے مہنگائی میں کمی کے تمام تر اثرات عوام تک پہنچائے جا سکیں۔ بہت اچھی بات ہے لیکن حمزہ شہباز شریف کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایسا میکنزم ان کے ”تایا“”ابا“ اور ان کے رفقاءکو ہی بنانا پڑے گا کیونکہ حکومت کی مدت ختم ہونے میں ابھی کم از کم 3 سال باقی ہے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے یہ عرصہ ”کافی“ ہے۔