عبدالقادر حسن گئے، سلیم عاصمی جا چکے،کیا پاکستان کی پہلی نسل ختم ہو رہی ہے؟

 عبدالقادر حسن گئے، سلیم عاصمی جا چکے،کیا پاکستان کی پہلی نسل ختم ہو رہی ہے؟
 عبدالقادر حسن گئے، سلیم عاصمی جا چکے،کیا پاکستان کی پہلی نسل ختم ہو رہی ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سیاست اور فریقین میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، بات تو اسی حوالے سے کرنا چاہئے،لیکن حالیہ دِنوں میں پے در پے اتنے لوگ دُنیا سے رخصت ہوئے کہ پریشانی ہوئی اور اب عبدالقادر حسن بھی اللہ کے روبرو پیش ہو گئے تو یکایک خیال آیا کہ یہ جو لوگ جا رہے ہیں، یہ تو سب اس نسل کے ہیں، جسے پاکستان کی پہلی نسل ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور ان لوگوں نے پاکستان  اور اس سے قبل بھی حالات کا مشاہدہ اور ایک حد تک عملی کام بھی کیا ہوا ہے، اب یہ احساس شدت سے ہوا ہے کہ یہ نسل بتدریج ختم ہوتی چلی جا رہی ہے، آج یہ گئے تو کل ہماری بھی باری ہے، کب تک جیئیں گے،کہ مرنا تو آخر اک دن ہے ہی، یوں بھی آج کے معروضی حالات میں زندگی سسک سسک کر ہی گذر رہی ہے۔ ایک وقت کھا لیں تو دوسرے کے لئے انتظار ہوتا ہے اور پھر اگلے روز کی سوچ سوار ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ایسی بیماری لاحق نہ کرے کہ کسی سرکاری یا نجی ہسپتال جانا پڑے۔


یہ تو ایک خیال ہے، جو آتا چلا جاتا ہے کہ دُکھ سُکھ انسان کے ساتھ چلتا رہتا ہے،بات تو آج جانے والوں کی کرنا تھی، خصوصاً عبدالقادر حسن اور سلیم عاصمی صاحبان کے حوالے سے جی بھر آیا ہے، دونوں حضرات جرنلزم سے متعلق اور دونوں ہی اہل اور قابل شخص تھے۔ عبدالقادر حسن اُردو اور سلیم عاصمی انگریزی صحافت کی زبردست شخصیات تھیں۔ اس سے بھی قبل ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، ہمارے پیارے دوست اور بھائی مولوی سعید اظہر اور احفاظ الرحمن داغ جدائی دے چکے ہوئے ہیں، ہر دو کو بھی ہم پاکستانی پہلی نسل ہی شمار کر لیتے ہیں کہ ان کی پیدائش قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی کی ہے۔ المیہ یہ کہ جن حضرات کا ذکر کیا، ان کے علاوہ بھی جو حضرات دُنیا چھوڑتے جا رہے ہیں، وہ سب بھی پہلی نسل ہی سے ہیں۔ملتان سے سید ناظم حسین شاہ کی رحلت والی خبر بھی صدمے کا باعث بنی کہ وہ بھی اس نسل سے تھے اور ہمارے ساتھ دوستی بھی تھی۔لاہور میں قیام کے دوران اور اسمبلی میں جب وہ رکن اور وزیر بھی رہے،خوب بنتی، وہ بہت زور سے قہقہے لگا کر ہنستے تھے۔ اکثر سیاسی خانوادوں کے بارے میں لطیفے بھی سناتے تھے، جبکہ صاحبزادہ فاروق علی خان بھی رخصت ہوئے وہ بھٹو دور کے سپیکر قومی اسمبلی تھے۔


عبدالقادر حسن اور سلیم عاصمی سے تو ہمارے تعلقات پیشہ ئ  صحافت کے حوالے سے تھے، اور عبدالقادر حسن میرے لئے احترام کا باعث یوں بھی رہے کہ میرے استاد محترم سید اکمل علیمی کے دوست تھے۔مرحوم جب امریکہ گئے تو ان کا قیام اکمل صاحب کے گھر فیئر فیکس کاؤنٹی ورجینیا میں رہا، مَیں خود بھی اس گھر میں پندرہ روز رہ کر آیا تھا۔ عبدالقادر حسن  بڑی دلچسپی سے سنایا کرتے کہ اکمل علیمی کا گھر ”نو سموک ہوم“ تھا اور مَیں (قادر حسن) سگریٹ پیتا تھا، مجھے اکمل نے بتا دیا تھا کہ سگریٹ نوشی نہیں ہو گی اور مَیں باہر نکل کر بالکونی میں تمباکو نوشی کر لیتا تھا، لیکن ضیا الاسلام انصاری (مرحوم) نے گریز کیا اور ان کی سگریٹ نوشی اور دھوئیں کے مرغولوں نے مسئلہ کھڑا کر دیا کہ فائر الارم بج گیا اور تھوڑی ہی دیر میں فائر بریگیڈ والے پہنچ گئے،اور بڑی دیر تک جائزہ لے کر اور وارننگ دے کر گئے کہ آئندہ ایسا نہ کیا جائے۔ عبدالقادر حسن سے میرا واسطہ کئی حیثیتوں سے رہا، ابتدا تو ان کے زمانہ رپورٹنگ کی تھی کہ جب کبھی سیاسی کوریج پر اکٹھے ہوتے تو ہم دور قدیم کے لوگ ان کو سینئر کی حیثیت سے احترام دیتے، کئی بار اُن کے لئے جگہ بھی خالی کی۔ اکمل علیمی اور وہ اکثر کئی تقریبات میں اکٹھے ہوتے تو حسن ان سے میرا ذکر کرتے، میرے ساتھ ان کا سلوک ہمیشہ مشفقانہ اور دوستانہ رہا، بے تکلفی سے بلاتے آغاز چودھری خادم صاحب سے کرتے اور پھر تکلم تم تک آ جاتا تھا، اس حوالے سے ایک واقعہ عرض کروں،

وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب روزنامہ ”امروز“ کے چیف ایڈیٹر بن گئے تو رپورٹروں میں سے میری ان کے ساتھ زیادہ جان پہچان تھی،انہوں نے ابتدا ہی میں سب کو بتا دیا کہ وہ خود رپورٹر تھے، اس لئے رپورٹنگ سٹاف سے کیا توقعات رکھتے ہیں، مَیں سیاسی رپورٹنگ کرتا تھا اور پیپلزپارٹی میری بیٹ میں شامل رہی۔ ایک روز صبح دفتر گیا تو معلوم ہوا کہ میری بیٹ میں تبدیلی کی گئی، اور پیپلزپارٹی کی رپورٹنگ دوسرے ساتھی کو دے دی۔میرے لئے تعجب ہی کی بات تھی کہ مَیں محنت سے کام کرنے کا عادی ہوں، جب چیف ایڈیٹر (قادر حسن) صاحب سے دریافت کیا تو ان کا جواب تھا کہ کسی بیٹ پر کسی ایک کی اجارہ داری نہیں ہونا چاہئے۔ دوسروں کو بھی یہ فرض نبھانے کی ضرورت ہے،مَیں خاموش ہو گیا، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چلا اور دو ہفتوں بعد ہی یہ رپورٹنگ واپس میری بیٹ میں شامل ہو گئی،ان کی یادیں اور باتیں تو بہت ہیں اور ہمارے اخبار میں بہت کچھ لکھا جا چکا، لکھا جاتا رہے گا،مجھے تو اب یہ بھی دُکھ ہے کہ مَیں سید اکمل علیمی(استاد محترم) کو یہ خبر کیسے بتا سکوں گا کہ وہ خود کافی عرصہ سے ”پارکنسن“ کے مرض میں مبتلا اور ان کے اعضاء کی کارکردگی سست ہو چکی ہے وہ بولتے بھی بہت ہی اٹک اٹک کر ہیں، اللہ حسن صاحب کی مغفرت فرمائے۔


جہاں تک سلیم عاصمی کا تعلق ہے، تو ان کا تعلق بھی ہمارے ادارے ہی سے تھا، بہت اہل انگریزی کے صحافی تھے، یہ اپنی جگہ، ان کی اہمیت یہ بھی تھی کہ وہ بے باک اور سچے، کھرے تھے، ان سے میرا واسطہ ٹریڈ یونین کے حوالے سے رہا۔ پی ایف یو جے کے متحرک رہنماؤں میں سے تھے۔ 1974ء کی تحریک ہو یا1977-78 والی سلیم عاصمی اگلی صفوں میں نظر آتے تھے۔ 1974ء کی تحریک جو مساوات سے ”شاہ جی“ کے ہاتھوں برطرف39 کارکنوں کی بحالی کی تھی۔اس کا مرکز لاہور تھا اور دفعہ144 کی خلاف ورزی کر کے رضا کارانہ گرفتاریاں دی جا رہی تھیں۔ میرے ذمہ قانونی معاونت اور یہ ڈیوٹی تھی کہ پریس کلب سے کھانا پکوا کر جیل لے جایا کروں۔یہ سب بخیرو خوبی ہو رہا تھا کہ ایک روز میرا نمبر بھی آ گیا، گرفتاری کے اگلے روز جب مَیں بیرک نمبر 10 (کیمپ جیل) پہنچا تو سلیم عاصمی نے نعرہ لگایا ”وہ آ گیا، اب ہمیں کوئی فکر نہیں“ بہرحال وہاں بھی فرائض ادا کئے اور سلیم عاصمی صاحب کی خواہش کا بھی احترام کر کے اندر  ہی انتظام کر دیا، وہ ہمیشہ یہ یاد رکھتے۔ خود اُردو سپیکنگ ہی تھے،لیکن ایم کیو ایم کے بہت بڑے اور کھلے ناقد تھے۔یہ بھی پاکستان کی پہلی نسل ہی سے تھے۔اللہ ان کو بھی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔

مزید :

رائے -کالم -