لاہور جلسے کے لئے فری ہینڈ، پی ڈی ایم کا امتحان
مجھے یقین ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت کو اس بات کی خوشی نہیں ہوئی ہو گی کہ حکومت نے لاہور جلسے کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس فیصلے کی وجہ سے پی ڈی ایم کی وہ توقعات پوری نہیں ہوں گی جو اس نے ملتان میں حکومتی اقدامات کے بعد لاہور میں ایک اور سنسنی خیز معرکہ سر کرنے کے حوالے سے باندھ لی تھیں اب سارا بار پی ڈی ایم پر آ گیا ہے کہ وہ اپنی تحریک کے اس آخری جلسے کو کامیاب بنائے۔ اتنا بڑا جلسہ کرے کہ حکومتی درودیوار ہل جائیں۔ اگر حکومت وہی احمقانہ پالیسی جاری رکھتی جو ملتان میں اپنائی گئی تو لاہور کا جلسہ عوامی شرکت کے لحاظ سے کامیاب ہوتا یا نہ ہوتا سیاسی لحاظ سے اس کی دھاک بیٹھ جانی تھی کہ اب حکومت اپوزیشن کی مخالف تحریک سے چاروں شانے چت ہو گئی ہے اور آمرانہ ہتھکنڈے اختیار کر رہی ہے۔ حکومتی فیصلے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس نے ملتان جلسے سے سبق سیکھا ہے جہاں اس کی بے تدبیری کے باعث بڑا تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ لاہور تو ویسے ہی بڑا شہر اور صوبے کا دارالحکومت ہے یہاں اگر حکومتی رکاوٹیں لگائی جاتیں تو لاہوریوں نے انتظامیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینی تھی پھر لاہور آنے والے اگر تمام راستے بند کئے جاتے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ پورا صوبہ جام ہو جاتا یہ ایسی صورتِ حال ہوتی جو پی ڈی ایم کی منزل آسان کر دیتی، لگتا ہے حکومت کے اندر جو سیاسی شعور سے عاری گروپ موجود ہے وہ ہار گیا ہے اور سیاسی شعور والے جیت گئے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ لاہور جلسے کے لئے پی ڈی ایم کو فری ہینڈ دے دیا گیا ہے۔
خبروں کے مطابق ملتان جلسے کی گونج وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی سنائی دی جہاں وزراء کے ایک گروپ نے جلسوں پر پابندی اور انہیں روکنے کی پالیسی جاری رکھنے کا مشورہ دیا جبکہ دوسرا گروپ ایسا تھا جس نے اس کی شدید الفاظ میں مخالفت کی اور ملتان میں روا رکھی گئی پالیسی کو اپوزیشن کے حق میں احمقانہ فیصلہ قرار دیا۔ بعض وزراء نے پنجاب حکومت یا دوسرے لفظوں میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پر بھی تنقید کی کہ وہ صورتِ حال کی نزاکت کو نہیں سمجھ سکے، ایسا کیوں ہوا اس کی تحقیق ہونی چاہئے۔ ذرائع کے مطابق بعض وزراء نے تو یہ تک کہا کہ پی ٹی آئی ملتان کے تنظیمی عہدیداران تو اسے حکومت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔ یہ سازش کس نے کی ہے اس کا کھوج لگانا بھی ضروری ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اپوزیشن سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں۔ کیونکہ وہ پہلی بار اقتدار میں آئی ہے ایک سیاسی جماعت کے لئے جس سیاسی شعور کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ابھی تحریک انصاف میں موجود نہیں، وہ خود تو اپنی حکومت مخالف تحریک کو اپنا بنیادی حق سمجھتی رہی ہے، 126 دنوں کا اسلام آباد میں دھرنا بھی دے چکی ہے لیکن اپوزیشن کو یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں جب ملتان کے قاسم باغ اسٹیڈیم میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے قبضہ کیا تھا اور رات کے وقت جلسے کے لئے پنڈال تیار کر رہے تھے، تو پولیس کی بھاری نفری کے ذریعے ان پر کریک ڈاؤن بھی ایک غیر سیاسی اور غیر دانشمندانہ اقدام تھا۔ پی ٹی آئی کو شاید بھول گیا کہ اسلام آباد میں جو دھرنا 126 دن جاری رہا، اس میں رات کے وقت صرف کنٹینر اور دو چار درجن کارکن ہی موجود ہوتے تھے، مگر اس کے باوجود نوازشریف نے یہ حکم نہیں دیا کہ راتوں رات آپریشن کر کے دھرنا ختم کرا دیا جائے کیونکہ اس سے کشیدگی بڑھتی اور اگلے دن خون خرابہ ہو سکتا تھا وہ بڑے صبر کے ساتھ یہ انتظار کرتے رہے کہ عمران خان خود دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیں، ملتان میں پولیس سے جو ایکشن کروایا گیا، اس نے ایک طرف حکومت کی سیاسی ساکھ خراب کی تو دوسری طرف شہر کی فضا کو اس حد تک کشیدہ کر دیا گیاکہ بات خون خرابے کی دہلیز تک آگئی، پھر پورے جنوبی پنجاب کی پولیس کو ملتان بلا لیا گیا، جو بذات خود ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ بڑی نفری کے ذریعے ماڈل ٹاؤن جیسا کوئی بھی واقعہ رونما ہو سکتا ہے کہ اسے کنٹرول میں رکھنا آسان نہیں ہوتا۔
اچھی بات ہے حکومت کو یہ عقل آ گئی ہے کہ سیاسی تحریکیں ریاستی جبر سے نہیں روکی جاتیں بلکہ سیاسی شعور، سیاسی فیصلوں اور سیاسی اقدامات کے ذریعے انہیں روکنے کی تدبیر کی جاتی ہے۔ ملتان میں جو کشیدگی بڑھی وہ مزید بڑھ جاتی اگر حکومت لاہور جلسے کو روکنے کا فیصلہ کرتی۔ اب تو بال اپوزیشن کے کورٹ میں ہے۔ آنے والے دنوں میں غالباً حکومت یہ دباؤ بڑھائے گی کہ اپوزیشن کو لاہور جلسے کے لئے ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہئے وہ یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ جلسے کی وجہ سے کورونا کیسز بڑھے تو اس کی ذمہ دار اپوزیشن ہو گی۔ اب اپوزیشن کے لئے دو بڑے ٹاسک ہوں گے ایک اس بات کا عوام کو یقین دلائے کہ کورونا اس کے جلسوں کی وجہ سے نہیں بڑھا اور دوسرا لاہور کے جلسے میں عوام کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت کو ممکن بنائے کہ اس کی تحریک نقطہئ عروج پر محسوس ہو۔
کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف جو چارج شیٹ لگا رہی ہے وہ اتنی مضبوط نہیں کہ عوام کو متحرک کر سکے، ملتان میں مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن نے جو تقریریں کیں، ان میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ اگر کچھ نیا تھا تو بس یہ کہ حکومت نے جلسے کو روکنے کے لئے آمرانہ ہتھکنڈے اختیار کئے اور عوام کے سامنے بے بس ہو گئی لاہور جلسے میں تو یہ باتیں بھی نہیں کی جا سکیں گی کیونکہ حکومت نے تو کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی، مہنگائی کا ایشو بھی صرف آٹے، چینی اور ادویات تک محدود رہتا ہے۔ مریم نواز نے ملتان میں مبالغہ آرائی سے کام لیا تو لوگ حیران ہوئے کہ تیس روپے کی روٹی اور 90 روپے کلو آٹا کہاں مل رہا ہے۔ یہاں تو 860 روپے میں بیس کلو کا تھیلہ ہر جگہ بآسانی دستیاب ہے۔ مریم نواز نے عمران خان کے بارے میں ”بندہ ایماندار ہے“ کی جو گردان کی، حقیقت یہ ہے کہ عوام آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان ذاتی طور پر کرپٹ نہیں ہیں۔ جہاں تک دھاندلی کے الزام کا تعلق ہے تو سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں خود بی بی سی کے اینکر نے یورپی کمشن کی رپورٹ کے ذریعے انہیں یہ باور کرا دیا کہ 2018ء کے انتخابات کو عمومی طور پر شفاف قرار دیا گیا، ان حالات میں حکومت اگر اپنے اعصاب مضبوط رکھے اور اضطراب میں احمقانہ فیصلے نہ کرے تو لاہور جلسہ بھی گزر جائے گا اور اس کے بعد آنے والے مرحلے بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔