چینی وزیرِ دفاع کا دورہ
چین کے وزیردفاع جنرل وی فینگی (Wei Fenghe) اپنے وفد کے ہمراہ تین دن کے دورے پر اسلام آباد پہنچے۔آج دورے کا آخری روز ہے۔ وہ کھٹمنڈو(نیپال) سے اسلام آباد آئے تھے۔ وہاں ایک روز کا دورہ تھا۔ انڈیا کے چاروں طرف جتنے ممالک بھی ہیں ان کے تعلقات انڈیا سے کشیدہ ہیں۔ سری لنکا، مالدیپ، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور چین سب کے سب کسی نہ کسی حوالے اور کسی نہ کسی حجم کے ساتھ انڈیاسے نالاں ہیں۔ انڈیا اپنے آپ کو چین کا ہمسر سمجھتا ہے۔ اس کا میڈیا جب بھی چین کا ذکر کرتا ہے تو آخر میں دونوں ممالک کو (Asian Giants)لکھتا اور پکارتا ہے۔ چین کے دیوقامت ہونے کی سمجھ تو آتی ہے لیکن انڈیا شائد صرف اپنے رقبے اور آبادی کو دیوقامتی کا پیمانہ سمجھتا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ ماضی میں 200برس تک برطانیہ کا ایک چھوٹا سا جزیرہ دنیا کی واحد سپرپاور تھا۔ آسٹریلیا، امریکہ، برصغیر، مشرق بعید اور مشرق وسطیٰ تمام کے تمام اس کے زیرِ نگیں تھے اور براعظم یورپ میں بھی فرانس اور جرمنی اس کے ایسے حریف تھے کہ جن کی عسکری قوت برطانیہ کے مقابلے میں واجبی سی تھی۔ یہی سبب تھا کہ برطانیہ کو برطانیہ عظمیٰ (گریٹ برٹن) کا نام دیا جاتا تھا۔ چین اور انڈیا کا رقبہ اور آبادی کم و بیش برابر ہو گی لیکن جہاں تک ملٹری پاور کا سوال ہے تو کہاں چین اور کہاں انڈیا۔
چین کے وزیر دفاع کے دورے کے متعلق ہمارے اور انٹرنیشنل میڈیا پر جو خبریں دی گئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی صدر ڈاکٹر عارف علوی نے جنرل وی (Wei) کو نشانِ امتیاز (ملٹری) عطا کیا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو کسی ملکی یا غیر ملکی فوجی کو دیا جاتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں زعماء کی ملاقات ہوئی اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور دوستی بڑھانے کی باتیں ہوئیں جو ایک معمول ہے۔ اس سے پہلے (یا شاید بعد میں) چینی وزیر دفاع نے پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور آرمی چیف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ لیکن ان سب تقریبات میں اہم ترین تقریب وہ تھی جس میں دونوں ملکوں کے وفود نے مختلف دفاعی شعبوں میں (MOU) پر دستخظ کئے……قارئین یہ ساری خبریں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھ اور پڑھ چکے ہیں۔ میں کوئی نئی باتیں نہیں لکھ رہا…… لیکن چینی وزیر دفاع اور ان کے وزٹ کے ساتھ جو ’نئی باتیں‘ منسلک ہیں، وہ میڈیا پر بتائی نہیں جاتیں کہ یہ ایک بین الاقوامی پریکٹس اور کلچر ہے۔ جو کچھ ہم میڈیا پر دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں، وہ اکثر و بیشتر فروٹ کا اوپر کا چھلکا ہوتا ہے۔ اس چھلکے کے اندر اصل چیز تو ’گُودا‘ ہوتا ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ جس طرح چھلکے کو پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح دفاعی معاملات کی روٹین میڈیا کوریج کو ’اہلِ نظر‘ پھینک دیتے ہیں۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض Eye Wash ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دفاعی خبروں کو اس لئے چھپایا جاتا ہے کہ ان کی پوشیدگی اور اخفا میں ہی ان کی قدر و قیمت کا راز مضمر ہوتا ہے…… جہاں میڈیا خبروں کو بے نقاب کرنے کو اپنی اصل کامیابی گردانتا ہے وہاں اہلِ لشکر کی اصل کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی ہر Move اور ہر خبر زیرِ نقاب رکھے۔چنانچہ یہ کیسے ممکن ہے کہ چین کا وزیر دفاع ایک بھاری فوجی وفد کے ساتھ پاکستان آئے اور آکر صرف یہ کہے کہ دونوں ملکوں کی دوستی ہمالہ سے اونچی، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے…… (ویسے آج کل اس تعریفی مثلث کی بجائے صرف آہنی دوستی (Iron friend ship) کی اصطلاح تراش لی گئی ہے۔)
سب سے پہلے تو یہ دیکھئے کہ اگرچہ یہ دورہ بالخصوص پاکستان کے لئے تھا لیکن اس کو نیپال کے ساتھ نتھی کرکے اس کی اہمیت کو ”معمول کا دورہ‘ قرار دینے کا تاثر دیا گیا ہے۔ یعنی جنرل وی (Wei) محض پاکستان کے لئے نہیں آئے بلکہ نیپال اور پاکستان دونوں کے لئے آئے ہیں۔ چین اور نیپال کے تعلقات حالیہ برسوں میں گرم جوشانہ ہو چکے ہیں۔ انڈیا نے اس کے ایک مغربی حصے پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ یہ حصہ اس کا جزوِلاینفک ہے۔ صدیوں سے نیپال زمین بند ریاست ہے اور اس حوالے سے انڈیا کا محتاج ہے۔لیکن اب یہ محتاجی ختم ہو رہی ہے۔ چین نے نیپال کے شمال میں کشادہ سڑکیں تعمیر کرکے اس کو تبت سے منسلک کر دیا ہے۔ اب وہ اسے سنکیانگ سے براستہ خنجراب، پاکستان اور پاکستان سے بذریعہ گوادر بحیرۂ عرب کا راستہ بھی دے رہا ہے۔ نیپال سے سنکیانگ تک کی سڑک پہلے ہی تعمیر ہو چکی ہے۔ یہ روٹ اگرچہ طویل ہے لیکن انڈیا کے راستے سے بھی سمندر طویل تر ہے۔ اب کوئی ہی برس جائے گا کہ نیپال، سنکیانگ شاہراہ پر کمرشل زون بن جائیں گے اور نیپالیوں کو وہ اشیائے صرف باآسانی دستیاب ہوں گی جو پہلے انڈیا دے رہا تھا۔
چینی وزیر دفاع کے دورے کی ٹائمنگ پر بھی غور کیجئے…… گلگت۔ بلتستان میں الیکشن ہو چکے اور اب وہاں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو گئی ہے۔ یعنی جو حکومت مرکز میں ہے، وہی GB میں ہے اور GB چونکہ CPECکا دروازہ ہے اس لئے یہ دروازہ اب ایک مستحکم مرکزی حکومت کا حصار بن چکا ہے۔ انڈیا ایک عرصے سے واویلا کر رہا تھا کہ یہ خطہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے اس لئے اس کو مستقل صوبہ نہ بنایا جائے لیکن جب اس نے 5اگست 2019ء کو جموں اور کشمیر کا الگ سٹیٹس ختم کر دیا تو اب پاکستان کو GB کا الگ صوبہ بنانے پر اس کا اعتراض صدا بہ صحرا ہوگا۔جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو وزیراعظم پاکستان، GB کی منتخب اسمبلی سے خطاب کر چکے ہوں گے۔ GB کے الیکشنوں میں مریم نواز اور بلاول زرداری نے چیخ چیخ کر جو آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا اس کا انجام آپ نے دیکھ لیا۔ GB کے عوام اتنے سادہ نہیں کہ وہ اپنے خطے کی سٹرٹیجک اہمیت سے بے خبر رہیں۔ جس طرح پاکستان کا مقدر اب چین سے وابستہ ہو چکا ہے، اسی طرح GB کا مقدر بھی پاکستان اور چین سے پیوست ہو چکا ہے۔
اگر آپ انڈین میڈیا کو بغور ٹریک کرتے رہے ہیں تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہ لداخ اور LAC کا نام لے لے کر اپنی افواج (برّی اور فضائی) کی عسکری انصرامی ضروریات (Logistic Requirements) کا ڈھنڈورہ پیٹتا رہا ہے۔ نومبر سے مارچ تک لداخ میں موسم سرما شدید ہوتا ہے۔ اس لئے اس نے ٹروپس کی وردیوں، رہائش، گولہ بارود کو سٹور کرنے اور پانی کا ذخیرہ کرنے کا سامان بالعموم مغربی ممالک اور بالخصوص امریکہ سے سستے داموں خرید لیا ہے۔اس سلسلے میں اسرائیل بھی اس کی مدد کر رہا ہے۔ انڈیا نے اپنے کئی بھاری ہتھیار (ٹی۔90 اور ٹی۔72 ٹینک اور لڑاکا اور ٹرانسپورٹ طیارے وغیرہ) لداخ میں جمع کر لئے ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ چونکہ چین نے LAC کے اس پار اپنے 50ہزار ٹروپس صف بند کر دیئے ہیں اس لئے وہ بھی ایسا ہی کر رہا ہے…… لیکن قارئین گرامی! یہ انڈیا کی چال ہے۔ وہ چین سے نہیں، پاکستان سے لڑنے کے لئے یہ سامان اکٹھا کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس سرمائی ساز و سامان اور گولہ و بارود کو سیاچن کے راستے قراقرم ہائی وے کی طرف لے جائے، اس شاہراہ کو بلاک کر دے اور پاکستان کو اپنے شمالی علاقوں سے کاٹ دے…… چینی وزیر خارجہ کا یہ دورہ اسی منظر نامے (Scenerio) کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔
وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتوں کے دوران جن موضوعات پر بحث کی گئی وہ ”سٹرٹیجک کمیونی کیشن اور کوآرڈی نیشن“ کے موضوعات تھے۔ باہمی دفاعی تعاون کو مزید بڑھانے کا جو مطلب ہے اس کی تفصیل اگرچہ نہیں بتائی گئی لیکن تفصیل کی ضرورت بھی کوئی نہیں۔دنیا جانتی ہے کہ انڈیا اگر پاکستان کے ساتھ کوئی ”جارحانہ پنگا“ لے گا تو اس کا مطلب کیا ہوگا۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ: ”انڈیا کے جارحانہ عزائم اس خطے کے استحکام اور امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہیں“…… اس ایک فقرے کی تشریح کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ چین اور پاکستان باہمی دفاعی بندھنوں میں بندھ چکے ہیں۔ یہ تفصیل منظر عام پر نہیں لائی جا سکتی۔ البتہ اس تفصیل کے خد و خال اس خطے میں ہونے والے واقعات میں دیکھے جا سکتے ہیں!