سردار تنویر الیاس اوروسطی باغ،امکانات،توقعات،خدشات
(تحریر محمد شہروز خان)
مستند زرائع اس خبر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ملک کے معروف بزنس مین سردار تنویر الیاس خان نے تا حال آزاد کشمیر کی عملی سیاست میں قدم رکھنے کاحتمی فیصلہ نہیں کیا،تا ہم یہ امکان ضرور ہے کہ وہ عملی سیاست کا حصہ ہوں گے۔اسی امکان کو لے کرگزشتہ چند دنوں سے موصوف کے متوقع حلقہ انتخاب کی خبر گرم ہے۔کہا جا رہا ہے کہ وہ ایل اے 15 وسطی باغ سے متوقع امیدوار اسمبلی ہو ں گے،اگر ایسا ہوتا ہے تو آئیے اس حلقہ کے معروضی حالات اور موافق ماحول کا جائزہ لیتے ہیں۔
وسطی باغ پندرہ کے قریب مختلف قبائل کا مجموعہ ہے جن میں بڑی دو برادریوں ملدیال اور نارمہ میں ملدیالوں کا انیس ہزار جبکہ نارموںکا اٹھارہ سے ساڑھے اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ ووٹ بنک ہے،جو نیچے آتے آتے پندرویںنمبر کی برادری کے تقریبا ساڑھے چھ سو ووٹوں تک پہنچتا ہے۔ برادریوں کی تخصیص سے قطع نظر اس حلقے کا ووٹر انتہائی زیرک اور با خبر ہے جو حا لات کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔اقتدار اس حلقہ کے ووٹر کی ترجیح اول ہے،جس کا اس حلقے کو ہمیشہ فائدہ ہی ہوا ہے نقصان نہیں ہوا۔اس کا ثبوت وسطی باغ کا باقی دونوں حلقوں غربی اور شرقی سے موازنہ کر کے ملتا ہے۔حلقہ غربی جس کے دروازے پر اقتدار چالیس برس تک ہاتھ باندھ کر کھڑا رہا اس کی پسماندگی آج بھی ستر برس قبل جیسی ہے۔کاہنڈی کے بیلٹ کو دیکھ کر پتھر کے زمانے کا خیال آتا ہے، ایسا ہی معاملہ شرقی باغ کا بھی ہے۔اس حلقے کی پسماندگی چیخ چیخ کر اپوزیشن کے فاقوں اور دو باری گروں کا نوحہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔اس کے بر عکس وسطی باغ نے ہر دور میں امیدوار بدلا، تبدیلی لائی اوراقتدار کو ووٹ دیا جس کی وجہ سے یہ حلقہ ہمیشہ اپنا حصہ با قدر جثہ سمیٹتا چلاآ رہا ہے۔روزگار،ادارے اور انفرا سٹر کچر کے لحاظ سے وسطی باغ باقی دونوں حلقوں سے ایڈوانس ہے۔جس کی واحد وجہ ہر پانچ سال بعد اپنے نمائندے کی تبدیلی اور اقتدار کو ووٹ دینا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ وسطی باغ نے ہمیشہ تبدیلی کو ووٹ دیا ہے۔اس حلقہ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں کا اکثر یتی ووٹر ماضی اور حال کے نمائندوں کا گہرائی سے تقابلی جائزہ لے کر اور مکمل جانچ پڑتال کے بعد الیکشن سے تھوڑا عرصہ قبل مستقبل کے امیدوار کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔2016میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔اور اب2021میں بھی ایسا ہی ہو گا۔آج الیکشن سے تقریبا سات ماہ قبل حلقہ وسطی کا اسی فیصد ووٹر اپنے موجودہ نمائندے وزیر حکومت مشتاق منہاس کے کمزور اور توانا پہلووں کا جائزہ لے کر جولائی 2021 کے لیے ذہن بنا چکا ہے۔جبکہ باقی بیس فیصد ایکٹیو کارکن اور ووٹر مارچ2021 کے منتظر ہیں۔اس حلقہ کے ووٹر کے مزاج کا یہ بھی خاصا ہے کہ وہ نئے امیدوار کے لیے ہموار گراونڈ کا بھی با غور جائزہ لیتا ہے۔نئے امیدوار کو یہاں ماضی کے امیدوار کا چھوڑا ہوا گیپ فل کر نا ہوتا ہے۔مثلا 2016 میں اس وقت کے وزیر سردار قمر الزمان خان نے روزگار،ادارے اورانفرا سٹرکچر میں میگا پراجیکٹ دیے لیکن انتخابات میں تیسرے نمبر پر رہے جس کی وجہ ان کا نا مناسب رویہ،ووٹر سے دوری اور مخصوص ٹولے پر نوازشات تھی،ان کے اس گیپ کو مشتاق منہاس نے فل کیا۔ مشتاق منہاس لوگوں سے بنفس نفیس ملے،برائے راست رابطہ استوار کیا،لوگوں کو بوسہ دیا اورانہیں مخصوص ٹولے کے رحم و کرم سے نکالا، لوگ ان کی طرف بھاگے آئے اور انہیں کامیاب کیا۔ یہ سب مشتاق منہاس کے وہ پہلوں ہیں جو 16جولائی کو ان کی کامیابی کا سبب بنے۔اب زرا جائزہ لیتے ہیں کہ مشتاق منہاس نے برسر اقتدار آنے کے بعد وہ کون سے کمزور پہلو واضع کیے ہیں جو نئے امیدوار کے لیے فیور ایبل ہوں گے۔عمو ماحلقہ وسطی میں منتخب نمائندے سے ووٹر کی تین بنیادی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔انفراسٹرکچر کی تعمیر؟؟اداروں کا قیام؟؟روزگار کی فراہمی۔
ان تینوں حوالوں میں مشتاق منہاس نے مائیکرو اور میجر انفرا سٹرکچر کی تعمیر تو کی لیکن اداروں کے قیام اور روزگار کی فراہمی میں وہ بری طرح فیل ہوئے۔آپ مائیکرو انفرا سٹرکچر(کچی سڑک،پی سی سی،ٹینکی،پائپ،واٹر سکیم،فٹ پاتھ) اور میجر انفرا سٹرکچر(پختہ سڑکات،پل ہا) کی تعمیر میں انہیں سو میں سے ساٹھ نمبر دے سکتے ہیں لیکن اداروں کے قیام اور روزگار کی فراہمی میں انھیں با لترتیب سو میں سے دس اور پانچ نمبر بھی بمشکل ملیں گے۔یہ کوئی سیاسی سٹنٹ نہیں بلکہ وسطی باغ کا ادنی ووٹر بھی اس سے آگاہ ہے۔ہر نجی محفل میں یہ قضیہ زیر بحث رہتا ہے۔اداروں کا قیام اور روزگار کی فراہمی یہی وہ دو گیپ ہیں جسے آنے والے امیدوار کو فل کرنا ہو گا۔اسی اہلیت کے حامل فرد کو وسطی باغ اپنا نمائندہ منتخب کرے گا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وسطی باغ سے متوقع امیدوار سردار تنویر الیاس اس گیپ کو فل کر سکتے ہیں؟اس سوال کا جواب ہے ہاں۔بلکہ یہ لکھنا غلط نہ ہو گا کہ سردار تنویر الیاس ہی اس گیپ کو فل کر سکتے ہیں۔ مگر کیسے؟سردار صاحب ذاتی حیثیت میں ایک مایہ ناز ایڈمنسٹریٹر ہیں جو ماضی میں بطور نگران وزیر اپنی ذمہ داری بطریق احسن نبہا چکے ہیں اور موجودہ وقت میں بھی وزیر اعلی پنجاب کے مشیر اور بورڈ آف انوسمنٹ کے چیئر مین ہیں۔ پرائیویٹ بزنس سیکٹر میں ان کا شمار ملک کے کم عمر ترین بزنس مینز میں ہوتا ہے وہ سینٹوریس کے علاوہ کئی دیگر کمپنیوں کے سی ای او بھی ہیں اس سب کے پیچھے ان کی صلاحیت اور اہلیت کار فر ما ہے۔ان کے فیملی بزنس سے اس وقت صرف بیرون ملک بیس ہزار سے ذایدافراد منسلک ہیں جبکہ پاکستان میں ان کے بزنس کے ساتھ وابستہ افراد کی تعداد لگ بھگ دس ہزار ہے۔اتنے بڑے ہیومن ریسورس کو انگیج کرنے والی شخصیت سے بڑھ کر روزگار کے مواقعوں کی فراہمی کے عمل کو بھلا کون ممکن بنا سکتا ہے۔آزاد کشمیر میں سیاحت ، ہائیڈل،زراعت،منرل اور لائیو سٹاک کے شعبے میں روزگار کا انتہاءپوٹینشل موجود ہے جسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے زریعے انڈسٹری کی شکل میں لانے کی ضرورت ہے۔یہ کام ایک وڑنری لیڈر،تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر اور جذبہ رکھنے والا فرد ہی کر سکتا ہے جس کے لیے سردارتنویرالیاس اور ان کی فیملی انتہائی موزوں ہیں جو ریاست میں سرمایہ کاری کر بھی رہے ہیں اورمستقبل میں اسے مزید وسعت بھی دے سکتے ہیں۔پونچھ میں زیر تعمیر ماڈل ام الیاس اسپتال جنڈاٹھی اس کی بہترین مثال ہے، جس میں غریبوں کو مفت علاج کی سہولت دینے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح شنید ہے کہ سیاحتی مقام پیر چناسی کا ایک بڑا رقبہ بھی سردار تنویر الیاس لیز پر حاصل کر چکے ہیں جہاں وہ ایک ماڈل ٹورازم سپاٹ قائم کریں گے۔ایک ملاقاتی کے بقول عرصہ قبل سردار تنویر الیاس ایک ملاقات میں پونچھ ڈوڑن میں مقامی انڈسٹری کے قیام کے حوالے سے ایک مربو ط پلان ڈسکس کر چکے ہیں۔جس میں گنگا چوٹی،سدھن گلی،نانگا پیر،لسڈنہ اورتولی پیر کو جدیدسہولیات سے آراستہ سیاحتی مقامات میں بدلنا شامل ہے۔ باغ کے نالہ ماہل میں جھیل تعمیر کر کے منگلا طرز کے واٹر سپورٹس، بوٹنگ اور فشنگ کے علاوہ باغ میں ماضی کے ایک زیر بحث منی ایئر پورٹ کے منصوبے کو بھی وہ عملی صورت دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔جدید ٹرانسپورٹ، زراعت اور فارسٹریشن سمیت مقامی صنعتوں کا فروغ بھی سردار تنویر الیاس خان کی تر جیحات میں شامل ہے۔اللہ نے انہیں اتنا سر مایا عطا کر رکھا ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے درجنوں منصوبوں میں وہ ذاتی حیثیت میں بھی پارٹنر بن سکتے ہیں۔یہ تمام منصوبے مقامی سطح پر ہزاروں افراد با لخصوص نو جوانوں کوروزگار کی فراہمی کے لیے سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔سردار صاحب کے بارے میں ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک بزنس مین ہیں جو روایتی سیاست دانوں کی طرح شاید عام آدمی کو میسر نہ ہو سکیں۔ اس حوالے سے بعض لوگ شاید آگاہ نہیں ہیں کہ سردار صاحب کی فیملی کا سیاسی پس منظر انتہاءقابل ستائش ہے۔ ان کے چچا سردار صغیر احمد خان سا بق ممبر کشمیر کونسل اور حلقہ پانچ پونچھ سے موجودہ ممبر قانون ساز اسمبلی ہیں۔بحثیت ممبر کشمیر کونسل سردار صغیر احمد خان نے پہلی بار کونسل کی سکیموں کو سو فیصد زمیں پر لگانے کی طرح ڈالی۔وہ مائیکرو لیول پر انفراسٹرکچر کی تعمیر کا عملی ثبوت فراہم کرنے والے پہلے ممبر ہیں جس کا اعتراف ان کے حلقے کا ہر فرد کرتا ہے۔آج بھی اپوزیشن پارٹی سے ممبر اسمبلی ہونے کے باوجود وارڈ کی سطح تک سکیموں کی منصفا نہ تقسیم کی مثال ان کے مخالفین بھی کھلے دل سے دیتے ہیں۔سردار صغیر ان چند ممبران میں سے ایک ہیں جو ہمہ وقت عوام میں موجود رہتے ہیں۔ان کے دروازے اور فون کبھی بند نہیں ہوتے۔ سردار الیاس فیملی کی عوامی خدمت کا یہ سفر لگ بھگ دو دہائیوں سے ذاید عرصہ پر محیط ہے۔واقفان سیاست کی آراءکے مطابق اگر سردار تنویر الیاس آزاد کشمیر میں 2021کے انتخابی عمل کے بعد اہم حکومتی عہدے پر براجمان ہو جاتے ہیں تو پانچ سال بعد 2026 میں لوگوں کو ایک مختلف آزاد کشمیر دیکھنے کو ملے گا۔