اومی کرون، نیا چیلنج
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے کیسوں میں کمی نظر آ رہی تھی اور حالات بہتری کی طرف گامزن تھے،لوگ پھر سے سیاست اور مہنگائی،یعنی معمول کے مسائل کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوگئے تھے، لوگ بیماری کے ڈر سے ویکسین بھی لگوا کر مطمئن ہونا شروع ہوگئے تھے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے لگائی جانے والی پابندیاں بھی ہٹائی جا رہی تھیں کہ جنوبی افریقہ سے سامنے آنے والی یہ خبر کہ کورونا وائرس کی ایک اور نئی قسم سامنے آئی ہے، نے ایک بار پھر عالمی سطح پر خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے۔اومی کرون کورونا وائرس کی ایک نئی قسم ہے۔ آج سے کچھ ہفتے پہلے تک دنیا کے چند ایک افراد ہی اس لفظ سے روشناس تھے، لیکن اب دنیا کے بیشتر ممالک میں اس لفظ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
وائرس کی پہچان ہی یہی ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ایسی تبدیلیوں کو سائنسی زبان میں میوٹیشن کہا جاتا ہے، جس طرح جب کسی کمپیوٹر میں وائرس آتا ہے، تو وہ آہستہ آہستہ پورے پروگرام میں پھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔ اسے روکنے کے لیے ہم اینٹی وائرس کا بھی استعمال کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات وائرس تمام سیکیورٹی فیچرز ہونے کے باوجود اپنا راستہ بنا لیتا ہے پھر بے شک آپ جتنے مرضی فارمولے اپنا لیں آپ کے پاس ایک ہی حل بچتا ہے کہ کمپیوٹر کا سافٹ ویئر ختم کر کے دوبارہ نیا سافٹ ویئر انسٹال کریں۔ بالکل اسی طرح انسانی وائرس میں ایسا خوفناک بدلاؤ ویکسین کا حفاظتی اثر بھی کم کر سکتا ہے۔وائرس زیادہ تیزی سے بھی پھیل سکتا ہے اور زیادہ سخت بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔ جب وائرس کا جینیاتی کوڈ بالکل پہلے جیسا ہو لیکن اس میں مسلسل میوٹیشن ہوتی تو اسے ”ویرئنٹ“ کہا جاتا ہے۔اومی کرون کورونا وائرس کا ویرئنٹ ہے، لیکن پہلا نہیں۔موجودہ اومی کرون سے پہلے ے بِیٹا ویرئنٹ اور ڈیلٹا ویرئنٹ بھی کافی نقصان کر چکے ہیں۔ جب بِیٹا ویرئنٹ سامنے آیا تھا تو وہ کورونا وائرس کی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی شکل بن گیا، وہ باآسانی ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہو جاتا تھا۔ ڈیلٹا ویرئنٹ بھی بالکل ایسا کرتا رہا۔ نئے ویرئنٹ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ شاید یہ ویرئنٹ بِیٹا اور ڈیلٹا سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلے گا۔اس سال کے شروع میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق تیسری لہر کے ویری ایشن ڈیلٹا میں 17ممکنہ تبدیلیوں کی شناخت کی گئی تھی۔ اومی کرون میں 43 تبدیلیاں بتائی جا رہی ہیں۔
جنوبی افریقہ میں جہاں اومی کرون سب سے پہلے پھیلا، ہسپتالوں میں زیادہ تر وہی مریض ہیں، جن کو ویکسین نہیں لگی تھی۔اس سے پہلے ڈیلٹا ویرئنٹ میں دیکھا گیا تھا کہ وائرس ویکسین کے باوجود پھیلتا رہا تھا۔ ویکسین شدہ افراد کی اموات کے زیادہ کیس تو سامنے نہیں آئے، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس نئے اومی کرون ویرینٹ میں بھی ایسا ہوگا ہے یا نہیں؟ اگر ایسا ہوا، تو ممکن ہے کہ ہمیں اومی کرون کے حساب سے بنی ہوئی ویکسین بھی لگوانا پڑے گی۔ ویسے ابھی سائنسدانوں کو بھی اومی کرون کے بارے میں اتنا زیادہ علم نہیں ہے۔بہت سے اہم سوالات کے جوابات اگلے دو ہفتوں میں ملیں گے۔
دو سال ہو گئے ہیں،لیکن کورونا وائرس نے ابھی تک پوری دنیا میں افسردگی اور ڈپریشن پھیلایا ہوا ہے۔ تین چار مہینے گزرتے ہی پھر ایک بڑی لہر آ جاتی ہو اور پھر سب بند ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹ بری طرح متاثر ہے۔ دبئی ایکسپو 2020ء بھی اس طرح نہیں ہو سکا، جس طرح کی سب کو امید تھی۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر کاروباری حالات بھی ناہمواری کا شکار ہیں۔ پاکستان کو ہی دیکھ لیں تو بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے کاروبار یا نوکریاں کورونا کھا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ تیرہ لاکھ کیسز اور تقریباً 30ہزار ریکارڈ اموات کے با وجود ابھی بھی بہت سارے لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔اگر آپ ان لوگوں کے بہانے سن لیں تو سر پٹکنے کو جی چاہے گا۔ کچھ لوگ ابھی تک کورونا کو یہودی سازش قرار دے رہے ہیں اور کچھ ”شاہین“ بل گیٹس پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے ویکسین میں ایسی چپ ڈلوائی ہے، جس سے وہ ہمارے دماغ پڑھ سکے گا۔ آفرین ہے ان لوگوں پر۔ اگر اپنا خیال نہیں تو اپنے اہل خانہ کا ہی سوچ لیں۔ یہ تو ایک چھوٹی سی بیماری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے تو علاج سمجھ کر ہی لگوا لیں۔ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ اب ہمیں نئی ویکسین یا بوسٹر کی ضرورت پڑے گی۔ حکومت کو چاہئے کہ ابھی سے نئی ویکسین بنانے کی تیاری شروع کر دیں۔ ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ ویکسین اب سب کو لگوائی جائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہر چند ماہ کے بعد کورونا وائرس کا کوئی نیا ویرئنٹ سامنے نہ آئے تو ہمیں ہر ایک فرد کو ویکسین مہیا کرنا پڑے گی۔ عوام سماجی فاصلے اور ماسک کی پابندی لازمی کریں اور اومی کرون سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔