مہرِ فلک کو اِس کی بھی شاید خبر نہ ہو
دُودِ چراغِ شب ہی عدوۓ سحر نہ ہو
خبریں یہ کیسے ملتی ہیں میرے رقیب کو
یہ نامہ بر رقیب کے زیرِ اثر نہ ہو
کھِلتے نہیں ہیں دامنِ دل میں گلِ جنوں
جب تک کہ اشکِ خونیں میں سوزِ جگر نہ ہو
اُس زندگی کو زندگی میں کس طرح کہوں
جو زندگی کہ یاد میں تیری بسر نہ ہو
اک انقلابِ خونیں کی دیتا ہوں میں نوید
ممکن نہیں نظام یہ زیرو زبر نہ ہو
جاگیں نصیب کیسے کہو کُچھ تو رہبرو
جس نسلِ بد نصیب میں اک دیدہ ور نہ ہو
چنگاریاں سی اُٹھتی ہیں سینے میں جعفری
خاکسترِ فسردہ میں رقصِ شرر نہ ہو
کلام :ڈاکٹر مقصود جعفری (نیو یارک)