حیرت انگیز چیز بچے کی ننھی سی ممی تھی، ننھا سا فرعون آنکھیں موندھے پڑا تھا، اب مجھ میں کسی اور مقبرے کو دیکھنے کی ہمت تھی نہ خواہش، خاصی شام ہوچکی تھی

Dec 03, 2024 | 10:25 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:80
 تاریخ کی اس تمام کہانی کو سمیٹنے کے بعد احمد نے مجھے اٹھایا اورقریب ہی واقع ایک ملکہ کے مقبرے میں لے گیا۔ جو عام مقبروں جیسا ہی تھا تاہم اس میں سیاحوں کی دلچسپی کے لئے کچھ تاریخی نوادرات اور فرنیچر وغیرہ رکھے گئے تھے۔ ورنہ اس کا ماحول بھی وہاں پائے جانے والے عام مقبروں جیسا ہی تھا۔ مگر یہاں جو ایک انتہائی حیرت انگیز چیز دیکھنے میں آئی وہ ایک ایسے بچے کی ننھی سی ممی تھی جس کو غالباً زندہ سلامت اس دنیا میں آنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ یہ ننھا سا فرعون ایک چھوٹے سے ڈھانچے کی صورت میں آنکھیں موندھے وہاں پڑا تھا۔ بتایا گیا کہ فراعین اپنے اسقاط حمل سے پیدا ہو جانے والے بچوں کی بھی ممیاں بنا کر انہیں بھی ان کی حیات ثانیہ کے لئے تیار کر تے تھے۔
اچھی خاصی شام ہوچکی تھی۔ اب نہ مجھے کسی اور مقبرے کو دیکھنے کی ہمت تھی اور نہ ہی خواہش، اس لئے ہم چپ چاپ ایک بڑی موٹر بوٹ میں بیٹھ کر بادشاہوں اور ملکاؤں کی ان سحر انگیز وادیوں کو خیر آباد کہتے الأقصر پہنچ گئے۔
احمد کو چائے پلا ئی اور اس کو طے شدہ مختانے کے علاوہ بخشش دے کر رخصت کیا۔ یہ میری انتہائی خوش قسمتی تھی کہ میرے دونوں ہی گائیڈ انتہائی سلجھے ہوئے، ذہین اور تاریخ پر عبور رکھنے والے نوجوان تھے اور دونوں کا اخلاق بہت اعلیٰ تھا۔
میں شام کو کپڑے بدل کر باہر آگیا اور چھوٹے سے الأقصر شہر کی سڑکوں پر خوب آوارہ پھرا اور کچھ دیر دریائے نیل کے ساحل پر ایک بنچ پر تنہا بیٹھا دریا میں آنے جانے والے سیاحتی بجروں اور ان پر منعقد ہونے والی رنگ و نور کی محفلیں دیکھتا رہا۔ میرے دائیں طرف کہیں دور کرناک کے مندروں میں مسلسل لائیٹ اورساؤنڈ شو چل رہا تھا اور وہاں سے اٹھنے والی رنگ برنگی جھلملاتی روشنیاں دور سے بڑا ہی دلکش منظر پیش کر رہی تھیں۔ کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں کے ساتھ وہاں سے اٹھنے والی آوازیں بھی سنائی دے جاتیں۔ ہنہناتے گھوڑوں، رتھوں والوں کی چیخ و پکار اور غلاموں کے شور و غل نے ایسا سماں باندھ دیا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کے قافلے ادھر کو ہی آ رہے ہیں۔
وہاں میں نے ایک چھوٹے سے سٹال والے سے مصری شوارما لیا اور پیپسی کا ڈبہ ہاتھ میں پکڑے ایک بار پھر اس بنچ پر آ بیٹھا اور کل کے بارے میں سوچنے لگا۔ کل مجھے صبح 9بجے کی فلائیٹ سے مصر کے ایک اور بڑے اور تاریخی شہر اسوان جانا تھا۔ یہ ایک بہت ہی خوبصورت قصبہ ہے جس کے چپے چپے پر قدیم اور جدید تاریخ بکھری پڑی ہے۔ میں نے پہلے سے ہی اس کے بارے میں بڑا کچھ پڑھ رکھا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کے آس پاس دریائے نیل اپنی خوبصورتی کی انتہاؤں کو چھوتا تھا۔ ویسے تو وہاں جانے کے 4 طریقے تھے یعنی بذریعہ بحری بجرہ، ریل گاڑی، سڑک اور ہوائی جہاز۔ لیکن میں نے ہوائی سفر اس لئے چنا تھا کہ یہ وہاں پہنچنے کا ایک آسان ترین اور تیز رفتار ذریعہ تھا۔ دوسرا جہاز میں بیٹھ کر جو دریائے نیل کا نظارہ کرنے کا لطف تھا وہ بھلا ریل گاڑی یا بس میں کہاں آسکتا تھا۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں