مولانا مجاہد الحسینی کی ملی خدمات پر خراج تحسین

مولانا مجاہد الحسینی کی ملی خدمات پر خراج تحسین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ ہے کہ دینی طبقات میں یکجہتی، تعاون و تناصر اور مشاورت کا فقدان ہے، ایسے میں یہ سُن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ 60سال تک اکابر کے ساتھ دینی محاذوں پر متحرک کردار ادا کرنے والے بزرگ عالم دین مولانا مجاہد الحسینی کے تجربات سے استفادے اور ان کی علمی، قلمی و ملی خدمات پر خراج تحسین کی ایک تقریب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہو رہی ہے اور اس کے محرک وہاں کے ایک اہلحدیث عالم دین ہیں۔
مولانا نے تقریب میں شرکت کے لئے ساتھ چلنے کو فرمایا، چنانچہ طے شدہ پروگرام کے مطابق براستہ گوجرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے لئے روانگی ہوئی۔ گوجرہ شہر سے ہی ایک دوراہے پر مولانا کے ایک عقیدت مند اور علماءو مشائخ کے قدر دان گھرانے کے چشم و چراغ حافظ عبدالحئی اپنی گاڑی کے ساتھ استقبال کے لئے موجود تھے، اُن کی رہنمائی میں اُن کے گھر جانا ہوا، جہاں انہوں نے اپنی قابل قدر لائبریری میں نایاب کتب دکھائیں۔ ماشاءاللہ گھر ہی کے ایک حصے میں بچوں اور بچیوں کی تعلیم قرآن کے لئے الگ الگ دو درس گاہوں پر مشتمل مدرسہ قائم تھا۔ مدرسے اور لائبریری کی ترتیب اور دیواروں پر آویزاں فن پارے حافظ صاحب کے حسن ِ ذوق اور سلیقہ مندی کے آئینہ دار تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی اس نشست میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے تلمیذ رشید اور بالواسطہ خلیفہ مولانا سید طفیل احمد شاہ گیلانی ؒ خطیب و مفتی اعظم گوجرہ کے نواسے حافظ سرفراز الحسن شاہ بھی تشریف لے آئے اور مجلس تذکرہ¿ اسلاف سے معمور رہی۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے میزبان حضرات کے دیئے ہوئے وقت پر ٹوبہ کے لئے روانگی ہوئی، اب ہماری گاڑی کے ہمراہ حافظ عبدالحئی کی گاڑی بھی تھی، جس میں انہوں نے راستے سے گوجرہ کے معروف دربار شہسواریہ کے سجادہ نشین پیر اسرار البہار شاہ کو بھی ساتھ لیا.... ٹوبہ میں مقامِ تقریب سے پہلے میزبان صاحبزادہ مولانا برق التوحیدی کے گھر جانا ہوا جو ماہنامہ ”التوحید“ کے مُدیر اور جدہ کے ایک سکول کے سابق ٹیچر ہیں، وہاں وقفے وقفے سے خصوصی مہمانوں کی آمد رہی ،جن میں فیصل آباد سے مولانا عبدالرشید حجازی جنرل سیکرٹری تنظیم اہلحدیث فیصل آباد، خطیب اعظم ٹوبہ مولانا محمد عبداللہ لدھیانوی کے صاحبزادے ودیگر حضرات شامل تھے۔ تھوڑی دیر میں مقام ِ تقریب رواج میرج ہال جھنگ روڈ ٹوبہ جانا ہوا، جہاں خاصی تعداد میں سامعین پہلے سے موجود تھے۔ شادی ہال کے مالک اور تقریب کے منتظم و سٹیج سیکرٹری حافظ عبدالباسط ایڈووکیٹ اور دیگر حضرات نے مہمانوں کا استقبال کیا.... شادی ہال کے حصے میں سلیقے سے سٹیج سجایا گیا تھا اور سامعین کے لئے بھی ایک ترتیب سے کرسیاں لگائی گئی تھیں.... مجلس میں ٹھہراﺅ آنے پر سٹیج سیکرٹری نے مائیک سنبھالا اور خصوصی مہمانوں کو سٹیج پرآنے کی دعوت دی، جن میں محرکِ تقریب مولانا برق التوحیدی، صدارت کے لئے بزرگ عالم دین مولانا حافظ رحمت اللہ فائز، مہمان خصوصی مولانا مجاہد الحسینی، مہمانانِ اعزاز میں حافظ عبدالحئی، مولانا عبدالرشید حجازی اور پیر اسرار البہار شاہ شامل تھے۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن حکیم سے ہوا، اس کے بعد توحیدی صاحب نے تقریب کے موضوع و مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے مجاہد الحسینی کی خدمات کو سراہا، اس کے بعد راقم الحروف کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی، جس میں بندہ نے اسی سفر کے دوران مولانا کی شان میں موزوں ہو جانے والے چند اشعار پیش کئے، جو اس مضمون کے آخر میں انشاءاللہ پیش خدمت ہوں گے۔ بعد ازاں حافظ عبدالحئی نے ایسی تقاریب کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مولانا سے اپنے استفادے کا ذکر کیا اور مولانا کے اس ملفوظ کو دُہرایا کہ اس وقت اُمت ِ مسلمہ ”امارة الصبیان“، یعنی نوجوانوں اور ناتجربہ کار لوگوں کی قیادت کے فتنے میں مبتلا ہے۔ مولانا عبدالرشید حجازی اور پیر اسرار البہار نے دینی قوتوں کی یکجہتی کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے مولانا سے اپنی عقیدت کا تذکرہ کیا۔
ان حضرات کے مختصر خطبات کے بعد سٹیج سیکرٹری نے مولانا مجاہد الحسینی کی مختصر سوانح حیات کے ساتھ ان کا تعارف کروایا اور انہیں خصوصی خطاب کی دعوت دی، مولانا کے خطاب کے مرکزی نکات درج ذیل تھے:
٭.... غلبہ ¿ اسلام کی جدوجہد میں نوجوانوں کو اپنے جہاندیدہ اور نرم و گرم چشیدہ بزرگوں سے ضرور مشاورت رکھنی چاہئے۔
٭.... مسلکی تعصبات سے بالاتر ہو کر تمام مسالک کے حضرات کو ایک دوسرے کے احترام و اکرام کے ساتھ اپنی قوت کو منظم کرنا چاہئے اور متفقہ امور میں ایک آواز پوری قوت کے ساتھ اٹھانی چاہئے، اپنے افتراق و انتشار کاتماشہ دشمن کو نہیں دکھانا چاہئے۔ اس ضمن میں مولانا نے1953ءکی تحریک ختم نبوت کے ضمن میں اکابر تحریک کے ساتھ اپنی اسارت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھئے ایک ہی تحریک میں بریلوی مسلک کے مولانا عبدالحامد بدالونی بانی ¿ تحریک علمائے پاکستان و مولانا ابو الحسنات خطیب مسجد وزیر خان، مسلک اہلحدیث کے شیخ اہلحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی، مسلک دیو بند کے امیر شریعت مولانا سید عطاءاللہ شاہ بخاری و مولانا احمد علی لاہوری، شیعہ مسلک کے مظفر علی شمسی وغیرہ حضرات ایک ہی جیل میں قید ہیں۔ نماز کے موقع پر سید بخاری مولانا ابو الحسنات سے فرماتے ہیں: بڑے میاں! نماز آپ پڑھائیں گے اور مولانا ابو الحسنات مجھے اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ جب تک ہم جیل میں ہیں ،ہمارے امام آپ ہوں گے، چنانچہ یہ سب حضرات ایک سالہ قید میں میری اقامت میں نمازیں ادا کرتے رہے۔ مولانا نے ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی مختلف جماعتوں کے اتحاد پر بھی زور دیا۔
٭.... تواضع سے دل جیتنے چا ہئیں، اس ضمن میں مولانا نے کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری سبط ِ حسن کا تذکرہ کیا کہ ہمارے جیل میں ہوتے ہوئے وہ بھی قید ہو کر جیل میں پہنچا تو مَیں نے پہلی رات اپنا بستر زمین پر لگا کر اپنی چارپائی پر سبط ِ حسن کا بستر لگا دیا جس سے و ہ متاثر ہوا، چنانچہ اُس نے جیل ہی میں مجھ سے قرآن پاک مع ترجمہ پڑھا اور بعد کی خط و کتابت میں مجھے اُستاد محترم لکھتا رہا۔ رہائی کے بعد ایک بار وہ شدید بیمار ہو گیا، مَیں نے سید بخاری شاہ صاحب سے اس کا تذکرہ کیا تو شاہ صاحب نے فرمایا:اس کی عیادت کو جانا چاہئے۔ سبط حسن کی رہائش میکلوڈ روڈ پر علامہ اقبال ؒ کی قدیم رہائش گاہ والی گلی میں نسیم حجازی کے روزنامہ ”کوہستان“ کے دفتر کی بالائی منزل پر تھی۔ شاہ صاحب کے پہنچنے پر نسیم حجازی سمجھے کہ مولانا ہمارے پاس تشریف لائے ہیں، چنانچہ آﺅ بھگت کی اور اپنا دفتر دکھایا، شاہ صاحب نے مجھے اشارہ کر کے پوچھا کہ وہ (سبط حسن) کہاں ہے؟ مَیں نے اوپر اشارہ کیا تو نسیم حجازی نے ناقدانہ انداز میں کہا کہ اوپر تو کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہے، جس پر شاہ صاحب نے فرمایا: مجھے مکین سے غرض ہے مکاںسے نہیں اور جہنم کے گڑھے کے کنارے کھڑے کسی شخص کو مَیں بچا سکتا ہوں گا، تو ضرور بچاﺅں گا.... شاہ صاحب کے پہنچنے پر سبط ِ حسن ان کے قدموں میں آ گرا اور مجھے مخاطب ہو کہ کہا:مجھے اطلاع کرتے کہ مَیں شاہ صاحب کو ملنے جاتا.... ہمارے اس طرز عمل کا اثر یہ ہوا کہ سبط ِ حسن کہنے لگا، میرے علماءکے بارے میں جو خیالات و نظریات تھے، وہ یکسر بدل گئے ہیں۔
ہمیں اپنی تاریخ اور حقائق سے واقف ہونا چاہئے اور تاریخی حقائق کو مسخ، کر کے پیش کرنے والے ناقدین و مخالفین کا موثر جواب دینا چاہئے.... آئے روز نام نہاد صحافی60،60سال پرانی بحثوں کو چھیڑ کرگڑھے مردے اکھاڑنے کی مذموم جسارت کرتے رہتے ہیں.... حضرت مدنی ؒ جیسے اکابر جو قیام پاکستان کے نہیں، بلکہ تقسیم کے فارمولے کے خلاف تھے، زبان درازی کرتے ہیں، ان ناقدین کو یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ نے قائداعظم ؒ کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا اور اپنے پورے دور وزارت میں ساری دنیا گھومنے کے باوجود افغانستان کیوں نہیں گیا؟ ظفر اللہ کے افغانستان نہ جانے کے ضمن میں مولانا نے اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ مرزا قادیانی نے اپنے نمائندے افغانستان بھیجے، جنہوں نے وہاں کے اربابِ اقتدار کو مرزا کی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، تو غیور افغانوں نے اُن کا کام تمام کر دیا تھا، پھر مرزا نے اس حوالے سے انہیں خط لکھا تو انہوں نے جواباً کہا: ”اینجا بیا“ (ایتھے آ) مرزا اپنے نمائندوں کے انجام بد کے بعد بھلا کیسے وہاں جانے کی ہمت کر سکتا تھا اور اِسی ”اینجا بیا“ سے ڈرتے ہوئے ظفر اللہ بھی اپنی پوری وزارت ِ خارجہ میں افغانستان جانے کی ہمت نہ کر سکا۔
مولانا نے یہ بھی فرمایا کہ پاکستان کے برادر اسلامی ملک افغانستان سے اسی انقطاع سے شاطرانہ فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے وہاں اپنا اثرو رسوخ قائم کر لیا اور آج اگر افغانستان کی طرف سے پاکستان کے لئے مشکلات ہیں تو وہ اسی ابتدائی ناکام خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ نیز ملک میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کی کلیدی عہدوں تک رسائی کا راستہ اگر کھلا رکھا جائے گا تو اس کا نتیجہ اسی طرح اسلامی برادری سے کٹ جانے کی صورت میں سامنے آئے گا اور ملک طاغوتی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی آماج گاہ بن جائے گا۔ مولانا نے حال ہی میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق دینے اور توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے ہونے والے نام نہاد مذاکروں کو اسی سازش کا پیش خیمہ قرار دیا اور فرمایا کہ ایسے مذاکروں میں دینی طبقات کی نمائندگی کے لئے جن من پسند اور ناتجربہ کار افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے، اس کے خلاف بھی آواز اٹھنی چاہئے کہ یہ پورے دینی حلقے یا کسی پورے مسلک کے نمائندے نہیں ہیں۔
٭.... مولانا نے عبدالمجید سالک کی کتاب ”یارانِ کہن“ جس کو شورش کاشمیری نے شائع کیا، میں مولانا ابوالکلام آزاد پر لگنے والے اس الزام کا تذکرہ کیا کہ وہ مرزا قادیانی کے جنازے کے ساتھ گئے تھے اور اس سلسلے میں بروقت اٹھائے جانے والے اپنے اس اقدام کا ذکر کیا کہ مولانا آزاد کو خط لکھ کر وضاحت چاہی اور انہوں نے اس کی تردید فرما دی، بات صاف ہو گئی اور ہمیشہ کے لئے قادیانیوں کے پروپیگنڈے کا دروازہ بند ہو گیا.... اس ضمن میں مولانا نے امیر شریعت سید بخاری کے اس ردعمل کا بھی ذکر فرمایا کہ شورش کو سمجھاﺅ، مولانا آزاد کا مسلمان ہونا تو اسلام کی حقانیت کی برہان ہے، شکر کرو یہ شخص الٹے راستے نہیں پڑ گیا، ورنہ اس کو تو قابو کرنا مشکل ہوتا، و ہ مرزا تھا، جسے ہم نے پچھاڑ لیا.... آخر میں مولانا نے اپنی کتاب” مولانا ابو الکلام آزاد کی مرزا قادیانی کے جنازے میںشرکت.... حقیقت افروز تجزیہ“ کی رونمائی فرمائی، جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے اور محدود تعداد میں کتاب سٹیج پر دستیاب ہونے کا ذکر فرمایا: چنانچہ حاضرین نے کتاب ہاتھوں ہاتھ لی۔
تقریب کے اختتامی مرحلے میں میزبان حضرات نے صدرِ مجلس کے ہاتھوں مولانا کو شیلڈ پیش کی اور صدرِ مجلس کی دُعا پر مجلس اختتام کو پہنچی اور لوگ مولانا سے مصافحہ کے لئے آگے بڑھے۔ مقامِ تقریب سے فراغت پر ٹوبہ ٹیک سنگھ کی بزرگ شخصیت مولانا عبداللہ لدھیانوی خطیب مرکزی جامع مسجد ٹوبہ جو کہ ایک عرصے سے علیل ہیں، کی زیارت و عیادت کے لئے جانا ہوا، نماز ظہر ادا کی گئی اور واپسی پر دوبارہ گوجرہ حافظ عبدالحئی کے گھر نماز عصر اور مختصر قیام کے بعد فیصل آباد کے لئے واپسی ہوئی۔
یہ تقریب اس لحاظ سے منفرد اور امید افزا تھی کہ اہلحدیث علماءکی طرف سے دیو بندی مکتب فکر کی ایک شخصیت کی حوصلہ افزائی کی تقریب تھی اور سٹیج پر دیو بندی، بریلوی اور اہلحدیث تینوں مکاتب فکر کی علاقہ کی بااثر قیادت کی یکجائی سے ایک حسین گلدستے کی نمائش تھی اور اتحاد بین المسلمین کی عملی تصویر اور دعوت تھی۔
آخر میں مولانا مجاہد الحسینی کی خدمات پر منظوم خراج عقیدت ملاحظہ ہو:
مجاہد ہیں، حسینی ہیں، قلم ہتھیار رکھتے ہیں
صحافت میں، نگارش میں بڑا معیار رکھتے ہیں
غریب وسار باں، آزاد و خدام و نوائے پاک(1)
جرائد کی ادارت کا گرم بازار رکھتے ہیں
چلے جو بھی قلم اسلامی قدروں کے تعاقب میں
تو اس کی گو شمالی کو قلم تیار رکھتے ہیں
نبی کی سیرت و ختم نبوت کے مبلغ ہیں
درونِ دل وفورِ عشق کی اک نار رکھتے ہیں
خزینہ آپ کا سینہ ہے تاریخی حقائق کا
روایاتِ سلف کا دل میں اک انبار رکھتے ہیں
بلا کا حافظہ پایا ہے اس پیرانہ سالی میں
کہ یادوں کے گلوں پر مشتمل گلزار رکھتے ہیں
ظفر، شبیر عثمانی، شفیع مفتی و افغانی(2)
اکابر سے تلمذ، نسبتِ ابرار رکھتے ہیں
شمار اس دور میں حضرت کا ہے کمیاب لوگوں میں
حسین احمد سے بیعت کا گلے میں ہار رکھتے ہیں
رفیق کار ہیں سید بخاری اور قاضی(3) کے
وہی جذبہ اکابر کا، وہی انوار رکھتے ہیں
سبھی فکری مکاتب کے لئے گویا وہ سنگم ہیں
کسی سے عار ہے اور نہ کسی سے خار رکھتے ہیں
تواضع اور شفقت میں بڑے پن کا یہ عالم ہے
کہ ہم جیسے اصاغر کو بھی اپنا یاد رکھتے ہیں
(1)اخبارات و جرائد کے نام جن کے مولانا مدیر رہے ہیں،(2) مولانا شمس الحق افغانی ؒ، (3) مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی ؒ۔ ٭

مزید :

کالم -