جیل سے وزیراعظم کے نام خط
آصف علی زرداری کے اوپر بنائے گئے کیسز کا ایشو ہو ، پانامہ لیکس کا کیس ہو یا پھر روز مرہ کے عدالتی مقدمات ہوں ۔عدالتی نظام مقدمے کو اس قدر لمبا کر دیتا ہے کہ جو شخص کسی کیس میں ملزم یا مجرم بن کر جیل جاتا ہے وہ ایک دو سال کے بعد مظلوم لگنے لگتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری جب جیل میں گئے لوگ ان کو ناپسند کرتے تھے مگر جب وہ جیل سے باہر تشریف لائے تو ’’مرد حر ‘‘ تھے۔ اصغر خاں کیس سے لیکر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس تک کئی کیس عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کی راہداریوں میں پڑے ہوئے نظر آئیں گے جن پر سیاسی جماعتیں ، صحافی حضرات اور عام آدمی طرح طرح کے تبصرے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آج کل روزانہ کی بنیاد پر میڈیا پر روزانہ تبصرے ہو رہے ہیں مگر عدالتوں کے معزز جج صاحبان کا یہ فرمان اپنی جگہ اہم ہے کہ عدالتی فیصلے عوامی خواہش یا کسی ادارے کی خواہش کی بنیاد پر نہیں بلکہ دستاویزی ثبوتوں اور دلائل کی روشنی میں کئے جاتے ہیں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے کیسز ایسے سامنے آتے ہیں جو آئینی اور قانونی کم جبکہ سیاسی زیادہ ہوتے ہیں یا ان کو کر دیا جاتا ہے مگر مجھے آج کسی سیاسی کیس ، کسی زرداری کیس ، ایان علی کے کیس ، پانامہ کیس پر بات نہیں کرنی ہے۔ مجھے تو کوٹ لکھپت جیل سے آنے والے ایک خط پر بات کرنی ہے جس کا ایک ایک لفظ پکار پکار کر دہائی دے رہا ہے کہ ایک نسل ختم ہو رہی ہے ،ایک گھر ،ایک خاندان اجڑنے کے قریب ہے مگر دل ہیں کہ پتھر کی مانند ہو چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی دلخراش داستان ہے جس کا کردار نہ بلاول ہے نہ حمزہ ہے بلکہ اس داستان کے تمام کردار ایک غریب اور مظلوم خاندان کے گرد گھومتے ہیں شاید اسی لئے آج 25 سال کی اسیری کے بعد بھی کسی حکمران نے اس ظلم کا نوٹس نہیں لیا خط کے کچھ حصے اس امید کیساتھ پیش کئے جا رہے ہیں کہ شاید وزیراعظم اور حکومت کے دیگر ذمہ داران پانامہ کیس کی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر اس کو پڑھ سکیں اور اس مظلوم خاندان کو انصاف مل سکے۔ خط لکھنے و الے ضلع ننکانہ کے قصبہ بچیکی کے رہائشی دو سگے بھائی ہیں جن میں سے ایک کا نام محمد منشاء اور دوسرے کا نام محمد سلیمان ہے خط کے مطابق آج سے تقریباً 25 سال قبل محمد سلیمان ، محمد منشاء اور ان کے والد محمد شریف اور ان کے دیگر 4 ساتھیوں کو قتل کے الزام میں سزا سنائی گئی ۔ محمد منشاء ، محمد سلیمان اور ان کے والد محمد شریف کو سزائے موت جبکہ کیس میں نامزد دیگر 4 ملزموں کو عمر قید کی سزا ہوئی ۔ مدعی پارٹی انتہائی با اثر تھی اور کافی دولت مند تھی جنہوں نے ملزم پارٹی کو عملاً بے بس کر کے رکھ دیا نتیجتاً محمد منشاء اور محمد سلیمان کے والد محمد شریف جیل میں ہی 6/7 سال قبل وفات پا گئے ۔ والدہ نے تمام جمع پونجی بیچ کر بیٹوں کو بچانے کیلئے مختلف عدالتوں اور وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگانے شروع کر دئیے لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد دور دور تک رہائی کی صورت جب نظر نہ آئی تو ان کی والدہ پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ بھی معذور ہو کر چارپائی پر لیٹ گئی ۔ خاندان میں باقی صرف دو بہنیں تھیں جو عدالتوں اور کچہریوں کے چکر لگا لگا کر بوڑھی ہو چکی ہیں دونوں بھائی تقریباً 25 سال سے جیل کاٹ رہے ہیں عرصہ سے سزائے موت کی کال کوٹھڑی میں بند ہونے کی وجہ سے ذہنی حالت بگڑتی جا رہی ہے وہ کہتے ہیں کہ نہ جانے کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں کئی بار ایوان صدر سے لیکر وزیراعظم تک اپیل بھیج چکے ہیں مگر کسی جگہ شنوائی نہیں ہو پائی ۔ والد جیل میں مر گیا ، والدہ معذور ہیں ، بھائی اور ہے نہیں بہنیں عدالتوں کے چکر لگا لگا کر رل گئی ہیں دونوں بھائیوں کی پھانسی کی تاریخ 4 فروری 2017ء طے پائی ہے ۔ وارنٹ جاری ہو چکے ہیں ہماری صبح و شام عبادت میں گزرتی ہے ہماری وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے اپیل ہے کہ اگر ہم دونوں بھائیوں کو پھانسی ہو گئی تو ہماری پوری نسل اور پورا خاندان صفحہ ہستی سے مٹ جائیگا کیونکہ ہم دونوں بھائی غیر شادی شدہ ہیں او ریہ سزا نسل کشی کے مترادف ہے۔ خط کے مطابق دونوں بھائی اپنے آپ کو بے گناہ قرار دیتے ہیں لیکن وہ خط میں اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ وہ یقیناًگناہگار انسان ہیں نہ جانے خداتعالیٰ نے ان کو کون سے گناہوں کی اتنی سخت سزا دی ہے ۔ یہ خط مجھے دو روز قبل ملا اس وقت سے لیکر آج تک مجھے سکون نہیں ملا تاوقتیکہ میں ان دونوں بھائیوں کے دکھ اور ان کی اپیل کو سپرد قلم کر کے وقت کے قاضی حکمرانوں اور پڑھنے والوں تک نہ پہنچا دوں میں نے خط ملنے کے بعد اس کیس کے بارے کافی حد تک ریسرچ کی کوشش کی ننکانہ کے بعض سیاستدان سے بھی گفتگو کی ۔ میں نے اس حوالے سے ایک لمحے کیلئے یہ بھی سوچا کہ آخر انہوں نے بھی تو کسی کا گھر اجاڑا ہو گا مگر بعد ازاں تمام صورتحال کو جان کر احساس ہوا کہ بعض کیسوں میں جرم سے زیادہ سزا دینا بھی بذات خود انصاف کا قتل ہے۔ میرے خیال میں سلیمان اور منشاء کا اگر کوئی جرم ہے بھی تو ان کو ان کے جرم سے زیادہ سزا مل چکی ہے میں نے اپنا فرض پورا کر دیا اب حکمرانوں اور وقت کے قاضی کے ذمہ ہے کہ وہ اس کیس کو سمجھیں اس درد کو محسوس کریں اور اس اپیل پر غور کریں تاکہ ایک ماں کو سکون مل سکے ایک گھر اجڑنے سے بچ جائے ۔ ایک خاندان کی نسل کشی نہ ہو اس تباہ حال خاندان کو خوشیاں مل جائیں۔ بوڑھی ماں کو آخری عمر میں سہارا مل سکے۔ سلیمان اور منشاء نے اپیل میں کہا ہے کہ وزیراعظم کو اپنی ماں سے خصوصی محبت ہے اس عقیدت اور محبت کے صدقے ہماری ماں ،ہمارے خاندان پر رحم کیا جائے۔