شاہدنذیرچودھری
بڑی تیز شفاف اُجلی اُجلی دودھیا روشنی کا غبار تھا ،دھند تھی۔کہیں ہلکی اور اسکے آس پاس ہلکی سی سیاہی .... ہاتھ میرے پاس آپہنچا تھا،انگلیاں لمبوتری اور نفیس و دبیز تھیں،کبھی میں اپنے آپ کو دیکھتا اور کبھی اپنی جانب بڑھتے ہوئے ہاتھ کو .... کون تھا ،کس کا تھا یہ ہاتھ۔ اور میں کون تھا،میرا یہ روپ کیا سے کیا ہوگیا تھا ۔سوچ اور دیکھ میں رہا تھا لیکن یہ بدن کس کا تھا....یہ لباس ۔سفیدتابدار گیروی چادر بڑی مضبوطی سے میری کمر پر بندھی تھی ، پنڈلیوں تک لہرا رہی تھی۔کاندھے پر ویسا ہی پٹکا جو سینے سے پشت سے ہوتاہوا کمر تک لہرا رہا تھا ۔مجھے اپنی توند بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی اور کچھ عجیب سا احساس ہورہا تھا کہ اس جسم کے اندر تو میں ہوں مگر یہ بدن کسی اور کا ہے ،میں ساڑھے پانچ فٹا اور قدرے فربہ اور یہ قد چھ فٹ نکلا ہوا،دبلا تراشیدہ ۔سر پر لمبے تیل میں چپڑے بال،چہرے سے داڑھی غائب اور ہلکی ہلکی مونچیں ۔کلائیاں بھی میری نہیں تھیں نہ سینہ میرا.... سیاہ گھنگریالے بالوں سے سینہ اور شانے بھرے ہوئے تھے اور چوڑی ہڈی والی کلائی کے آخر پر لمبے ہاتھ .... تھا تو میں .... مگر یہ میں نہیں تھا .... میں دنیا والوں سے لاکھ کہتا کہ یہ میں ہوں میں .... مگر کون اعتبار کرتا.... کسی کے ساتھ کبھی ایسا ہوا جو نہ تھا.... جس تن لاگے وہ ہی جانے.... میں مخمصہ ،حیرت اور پریشانی میں اپنے سامنے لہراتے ہاتھ کو دیکھتا رہ گیا۔
اس نے نرمی سے میری کلائی تھامی اور مجھے مندر کی جانب آہستہ آہستہ لئے چل دیا ۔جوں جوں آگے بڑھتے دودھیا اجالا سرکتا جاتا ،ایسے جیسے کسی حسینہ کے چہرے سے نقاب سرکتا ہے تو حسن آتشین کا جلوہ کھلنے لگتا ہے۔میرے سامنے مندر کی آراستہ سیڑھیاں تھیں،ان کی طاقوں میں شمعیں جل رہی تھیں اور ان سے مہکیلا نرم نرم دھواں ،خوشبو ایسی کہ لافانی۔ ہاتھ سرکتا ہوا ،کم ہوتا چلا جارہا تھا ،میں اب ایک معمول کی طرح چل رہا تھا۔راہداریوں سے گذر کر ایک بڑے سے دروازے پر پہنچے تو ہاتھ کے گرد پھیلا سارا دودھیا نور ہوا میں تحلیل ہو گیا اور یکدم تیز دودھیا روشنی آنکھوں میں پڑی تو میں نے آنکھیں موند لیں ۔
” آنکھیں کیوں موند لیں مہاویر وشال دیونے۔اپنوں سے لاج کیسی .... برسوں سمے بیت گئے ہم آپ کے درشن کو ترس گئے ۔آج آئے ہیں تو آنکھیں موند لیں....“ میں نے جھپک جھپک کر آنکھیں کھولیں تو میرے سامنے نور کا ہالہ سا لہرایا اور پھر....ایک مسکراتا ہوا تروتازہ ،بے شکن بوڑھا نورانی چہرہ دکھائی دیا۔سفید دراز داڑھی سینے کو چھو رہی تھی۔آنکھیں سیاہ سرمے میں دھلی ہوئیں موٹی موٹی متبسم۔مونچھی گھنی نوکدار سفید تاو¿ کھائے ہوئے۔بالکل ویسا ہی لباس جیسا میں نے زیب تن کیا ہوا تھا.... لیکن اسکے سینے پر بال ذرا کم تھے اور مجھ سے لانبا قد۔عین سینے سے بائیں جان دل سے اوپر ہلکا سا نورانی ہالہ سا دودھیا روشنی یوں توں پھینک رہا تھا.... لگتا تھا نور کا یہ کہرا اس کے سینے سے پھواریں پھینک رہا تھا اور اپنے محور میں سمٹ گیا ہے۔اس نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور مجھے دونوں بازووں سے بھینچ لیا۔اسکی آنکھوں میں مسحور کن کشش تھی۔ان میں میرے لئے محبت کا بحر بیکراں تھا ،چاہت اور تڑپ تھی۔
جناتی کی نویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
” جانتے ہو وشال دیو آج میں کتنا خوش ہوں ۔اپنی زندگی میں ہی تمہارا آٹھواں جنم دیکھ لیا ہے ۔“ اس نے مجھے دبا کر سرشاری سے کہا لیکن میرے ذہن میں تو جیسے جھماکے سے ہونے لگے۔” آٹھواں جنم ....کک کیا مطلب“ میں اندر ہی اندر چیخا....
” مجھے آگیا مل گئی تھی کہ تم جنم لے چکے ہو اور بارہ سال کی عمر میں تمہیں سنت سادھو موکش اور گرنتھوں کی پڑھائی کے لئے سماتا لے گئے تھے۔یاد ہے ناں سماتا میں مہادیو کا استھان ہے ۔اسکے بعد تم کہاں کہاں گئے نروان تپسیا کے لئے میں نہیں جانتا لیکن اتنا یاد ہے مجھے کہ تیرے باپوکالیکا دیو مہادیوکو نویں جنم کے بعد جب نروان مل جائے گاتومیرا شریر کسی جیو( روح) کا محتاج نہیں رہے گا ۔میں نے جین مت کو امر کرنے کا وچن دیا تھا وشال پتر .... اور تو نے میرا مان رکھا۔صدیوں سے ہم بیٹا مختلف شریروں میں جنم لیتے آرہے ہیں ۔ تم جانتے ہوہماری روحوں کو نروان کا پہلا گیان ہی اس روشنی سے منور کردیتا ہے کہ روح کو اپنے سارے جنم یاد رہتے ہیں لیکن وہ مادے سے بنے شریر کی قید میں بہت کچھ بھول جاتی ہےں۔وشال پتر جب نروان بڑھتا ہے،تپسیا گیان سے مادے کی گرہیں کمزور ہو جاتی ہیں تو روح کو شانتی اور مکتی وجدان ملتا ہے۔وہ آزاد ہوجاتی ہے۔مہاویر دیوتا کی ”جیو“ کے کارن تم یہاں آگئے اور اب اس جین مندر کو تم نے نروان گھاٹ بنانا ہے۔“ وہ نورانی بوڑھا والہانہ خوشی سے بولتا جارہاتھا اور مجھے کچھ یاد نہیں آرہا تھا .... میں دم بخود اسکو دیکھتا جارہا تھا ۔” میرا باپو....آٹھواں جنم.... نروان اور جین مت “ اس نے میرا ہاتھ تھاما اور ایک جانب چبوترے پر بنے پاٹ خانے میں لے جاکر بیٹھا دیا اور اونچی آواز میں پکارا....
”خوشی خوشی دیکھ کون آیا ہے....“کالیکا دیو نے مسرت آمیز انداز میں کسی کو پکارا.... دھیرے سے بائیں جانب کا کواڑ کھلا ۔ میں نے مونہہ موڑ کر ادھر دیکھا.... اور دیکھتا رہ گیا.... میرون پوشاک میں چاند سا چہرہ، ننگے پاو¿ں چبوترے کی طرف آتا دکھائی دیا ....مجھ پر نظر پڑی تو وہیں ساکت ہوگئی ....
اس نے ایک نظر کالیکا دیو کی جانب دیکھا،ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا اور پھر میری جانب دیکھتی رہ گئی.... گلابوں اور چاندنی سے بنی اس جان کی کیا تعریف کروں ۔اسکے گلے میں سفید مالا ،کانوں میں جھمکے اور ماتھے پر ٹیکا ....سر پر ہلکا سا ریشمی آنچل.... حیا اور تقدیس نے اسکو لافانی حسن کی دولت عطا کردی تھی” وشال دیو....“اس کے لب کھلے تو لگا کسی نے میرے کانوں میں شہد گھول دیا ہے ۔مٹھاس اور نرمی ۔کیا ایسی عورتیں دنیا میں ہوتی ہیں.... مجھ سے بیٹھا نہ رہا گیا ۔حسن کا ادب کرنا مجھ پر واجب تھا.... میں بے اختیار اسکی جانب بڑھا ....
اس نے مجھے پرنام کیا۔” وشال دیو آخر تم آگئے.... کتنے برسوں سے ہم سب تمہارا انتظار کررہے تھے ۔باپو کو گیان تھا کہ تم اب جلد آنے والے ہو.... باپو کی منزل قریب آچکی ہے اور وہ مکتی سے پہلے تمہیں بہت کچھ دینا چاہتے تھے۔مہاویردیوتا کی کرپا سے آخر تم آگئے....“
اب تک میں خاموش تھا ۔ایک لفظ بھی زبان سے ادا نہیں کرسکا تھا اور اب میں بولنا چاہتا تھا .... لیکن کیا ؟ یہ کہ میں ان کو بتادوں میں کون ہوں اور میں نہیں جانتا کہ تم سب کون ہو اور یہ سب کیا ہورہا ہے.... خوشی کو دیکھ کر میرے دل میں نہ جانے کیسے جذبات امڈ آئے تھے اور میں اس اپسرا کو اپنی نظروں سے کسی صورت اوجھل نہیں کرنا چاہتا تھا۔مجھے نہیں معلوم میرا اور اسکا کیا تعلق تھا۔لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا ہم جنم جنم سے ایک ہیں ....ہم دونوں کا وجود ایک ہے۔روح بھی ایک ہے۔ایسا قرار تو انسان کو اس وقت ملتا ہے جب کوئی اسکے بہت قریب ہوتا ہے۔
”خوشی....“ میں نے اسکی بے تاب اور خوشی سے لبریز آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پہلا لفظ بولا تو مجھے اپنا لہجہ بے گانہ لگا۔بھاری مردانہ آواز میں پرایا پن موجود تھا” میں بھی توصدیوں کا ترسا ہوا ہوں ....تم کہاں تھیں میں نہیں جانتا لیکن میرے نروان میں تم میری سانس بن کر میرے ساتھ رہی ہو.... میرے باپو اور تیرے سوا مجھے کس کی لگن ہوسکتی تھی۔“ میری زبان بول رہی تھی،دماغ اور کان بھی سن رہے تھے اور سٹپٹا رہا تھا اندر سے ....کہ یہ میں کیا بک رہا ہوں میرے خدا.... میں کس بت کدے میں آپہنچا ہوں ۔بڑی حیرت تھی .... میرا ذہن جاگ رہا تھا .... یہ کیسی روح تھی جو صدیوں بعد آٹھواں جنم لیکر اپنوں سے مل رہی تھی لیکن اسکا دماغ اکیسویں صدی کے انسان کی طرح سوچ رہا تھا .... مجھے احساس سا ہوا کہیں میں دماغی خلل میں تو مبتلا نہیں ہوگیا اور میں یہ کیا کررہا ہوں .... کیا روح اور جسم دو الگ الگ قوتیں ہیں اور دونوں اپنی اپنی دنیا رکھتے ہیں.... جسم کی اپنی سوچ اور زبان ہے اور روح کی اپنی.... میں جو جاگ رہا تھا وہ روح تھی یا جسم کا نظام .... کتنی پیچیدہ ذہنی کشمکش میں جکڑا گیا تھا میں.... کوئی اندازہ نہیں کرسکتا ....
کالیکا دیو بولے” خوشی اسکو ساتھ لے جا اور آرام کرنے دے،سیوا بھی کر اسکی ....“
کالیکا دیو میرے پاس آئے اور میری آنکھوں میں دیکھ کر بولے” وشال دیو تو آرام کرلے ،اور پھر جب جاگو گے تو تمہیں اپنے ساتھ نروان کے پاٹ پورے کراؤں گا“
میں نے کالیکا دیو کو پرنام کیا تو خوشی نے میرا ہاتھ تھام لیا.... برق سی میرے پورے دماغ کو جھنجلا تی گزر گئی۔ لیکن یہ کیا.... میرے پورے بدن میں کسی قسم کے لمس کااحساس نہیں جاگا تھا ....میرا دماغ پر خوشی سے لپٹ کر اسکی مہک کو سمیٹنے کا جنون سوار ہورہا تھا لیکن میںآرام سے نہایت تمیز کے ساتھ اسکے ساتھ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔اس دوران مجھے یاد آیا کہ یہ جین مت کا مندر ہے اور یہ جین مذہب کے پیروکار ہیں تو میں نے کئی سال پہلے ان کے بارے میں پڑھا تھا کہ یہ لوگ بھی بد ھ مت والوں کی طرح نروان لیکر اپنے نفس کو ختم کردیتے اور نفسانی خواہشوں کے غلام نہیں رہتے۔ انہیں اپنے جذبات پر قدرت ہوتی ہے اور یہ کمال انہیں اس وقت حاصل ہوتا ہے جب روح طاقتور ہوجاتی ہے۔بدن کی آلائشوں اور حاجات سے ماورا ہوجاتی ہے.... تو کیا میں ان لوگوں کا بچھڑا ہوا ماضی ہوں ....کیا میرے جسم کو ایسے کسی سرور یا راحت کی ضرورت نہیں ہے جو لمس کی قوت سے جنم لیتا اور اسکا جی نہیں بھرتا۔
خوشی نے کمرے میں پہنچ دوسرا درواہ کھولا تو سامنے ایک وسیع باغیچہ نظر آیا۔اس نے میرا ہاتھ چھوڑااور آنکھوں سے مجھے اشارہ کیا اور ساتھ لیکر باغیچے میں چلی گئی ۔اسکی چال میں سرشاری اور ہرنی جیسی لپک لچک تھی ۔باغیچے میں درختوں سے چاندنی چھن چھن کر ایک چھوٹے سے تالاب کے پانی پر یوں پڑ رہی تھی کہ پانی نیلم جیسی روشنی سے منور ہورہا تھا ۔وہ تالاب کے کنارے بیٹھی تو درختوں سے پر پھیلائے کتنے ہی سارے مور اسکی جانب لپکے اور اس کے پاس آکر پیلیں ڈالنے لگے۔میں اس حیرت انگیر منظر کو دیکھنے لگا۔مور ردھم سے کبھی سر اٹھاکر خوشی کی جانب دیکھتے کبھی پر پھیلا کر اس پر سایہ کردیتے ۔
(جاری ہے، گیارہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)