موسم بدل رہا ہے اور۔۔۔زندگی بھی

موسم بدل رہا ہے اور۔۔۔زندگی بھی
موسم بدل رہا ہے اور۔۔۔زندگی بھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری زمین قدرت کا بہترین کرشمہ ہے اور ہر خوبصورت شاہکار کی طرح ہماری زمین کو بھی مناسب دیکھ بھال کی ضرورت ہے ۔ صدیوں سے انسان کسی بھی نتیجے کی پرواہ کئے بغیر زمین کے قدرتی وسائل بیدریغ استعمال کر رہا ہے۔ اس وجہ سے آب و ہوا کی تبدیلی اب ایک کڑوی سچائی بن کے واضح ہو چکی ہے مگر ہم ابھی تک شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے اس حقیقت کو جھٹلا رہے ہیں۔
انسان کو زندہ رہنے کے لئے ہوا، پانی، کھانا اور محفوظ جگہ کی ضرورت ہے جوسب یہ زمین ہی مہیا کر رہی ہے لیکن آب و ہوا میں تبدیلی سے دنیا کافی حد تک بدل رہی ہے۔ موسم بدل رہے ہیں اور عالمی سطح پر درجہء حرارت میں تیزی آ رہی ہے۔ پچھلے سو سالوں میں جدید طرزِ زندگی ، انسانی سرگرمیوں اور صنعتکاری نے دنیاکا توازن تبدیل کر دیا ہے۔ توانائی کے حصول کے لئے جنگلات کی کٹائی اور حیاتیاتی ایندھن کے استعمال سے زمین کا درجہء حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے۔ اس وجہ سے سیلاب ، قحط اور جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔سمندری طوفانوں کی شدت میں تیزی آنے سے ساحلی ماحولیاتی نظام بھی خراب ہو رہا ہے۔ قدرتی آفات شدیداور طویل ہوتی جا رہی ہیں جن کے اثرات انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
زمین کا درجہء حرارت ایک ڈگری بڑھ چکا ہے ۔ یہ پچھلی چار صدیوں صدیوں میں سب سے زیادہ اور پچھلے ایک ہزار سال میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی سطح پر ہے۔ سمندری سطح بھی پچھلے سو سال میں چار سے آٹھ انچ تک بڑھ چکی ہے اور مزید بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال نشیبی گنجان آباد ساحلی عاقوں کے لئے انتہائی خطرناک ہے جس سے سینکڑوں لوگ بے گھر ہو سکتے ہیں۔
قطبی علاقے دنیا کی آب و ہوا میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پچھلے بیس سالوں میں برفانی ٹوپیاں تیزی سے پگھل رہی ہیں اور اسی تیزی کے ساتھ سمندری سطح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ پانی سمندرہوں میں بہہ کر سمندری لہروں میں تبدیلی لا رہا ہے اورسمندری حیات پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ دراصل گلوبل وارمنگ سے صرف گلیشئر ہی نہیں پگھل رہے بلکہ زندگی کا نظام بھی متاثر ہو رہا ہے۔ دنیا میں نئی اور خطرناک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں، الرجک ردِعمل بڑھ رہے ہیں ۔ جرگ شمار اگلے تیس سالوں میں دوگنا ہو جائے گا۔ انفیکشن والی بیماریاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ مچھروں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں کی نئی نئی قسمیں پیدا ہو رہی ہیں جن سے ڈینگی اور کونگو وائرس جیسی خطرناک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
آب و ہوا میں تبدیلی کے اثرات خوفناک ضرور ہیں لیکن آئندہ آنے والے نسلوں کے لئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ ہم اپنی زمین کو بچانے کے لئے اقدامات کریں۔ وقت اور صورتحال کا تقاضا ہے کہ بڑے پیمانے پر عالمی اور قومی سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے۔ توانائی کی کھپت کے قوانین میں بہتری کی گنجائش ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جو ہماری زندگی میں پائیدار ترقی کے ضامن ہوں۔ آلودگی میں کمی، پانی کے ضیاع کی روک تھام، دوبارہ استعمال کے ذرائع کا استعمال اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بہتری لائی جائے۔
ذاتی طور پر ہم پیدل چلنے، پبلک ٹرانپورٹ استعمال کرنے، غیر استعمال شدہ اشیاء بند کرنے، پودے لگانے، دھواں دینے والی گاڑیوں کے انجن ٹھیک کروانے، کوئلے اور لکڑی کے ایندھن کا استعمال بند کرنے اور مناسب طریقے سے کوڑا پھینکنے سے بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو درختوں اور پودوں کا خیال رکھنا سکھاناچاہئیے اور دوسروں کو بھی اس سلسلے میں پہل کرنے کی ترغیب دینی چاہئیے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک صاف، خوبصورت اور صحتمند مستقبل دے سکیں۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ صفائی سے رہنا صحتمند بھی ہے اور کم خرچ بھی۔
’ ’ وہ پیسہ خرچ مت کریں کو آپ کے پاس ہے نہیں،
اُن چیزوں پر جن کی آپ کو ضرورت نہیں،
اُن لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے جو آپ کو پسند نہیں ‘‘
ہماری پسند اور ہمارا طرزِ زندگی ہمیں شدید موسمی حالات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرناک نتائج کی طرف تیزی سے لے جا رہے ہیں۔ ہمیں مان لینا چاہئیے کہ یہ مسئلہ ہم نے خود پیدا کیا ہے اور اس کا حل بھی ہم سب کو مل کر کرنا ہے۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -