مار نہیں پیار
انگریزی کا ایک محاورہ ہے۔۔۔ Spare The Rod And Spoil The Child ۔۔۔ یعنی چھڑی نہ استعمال کرکے آپ بچے کو خراب کررہے ہیں۔ یہ ان کا اپنا محاورہ نہیں ہے، بلکہ یہ غالباً کسی پرانی یونانی (Greek) یا رومن پینٹنگ سے ماخوذ خیال ہے،یعنی بچے کو پڑھانے کے لئے چھڑی کا استعمال، یعنی تشدد بہت ہی پرانی روایت ہے۔ شاید اس لئے تیسری دنیا میں جہاں سکولوں میں تشدد زیادہ ہوتا ہے، شرح خواندگی بہت کم ہے۔ اگر پیار محبت سے پڑھایا جائے تو تشدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انسان نے قدرت کے مشاہدے اور جانوروں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اب دیکھئے جانوروں میں سب سے زیادہ مارگدھے کو پڑتی ہے، لیکن پھر بھی گدھا سب سے زیادہ بے وقوف جانور کہلایا جاتا ہے، یعنی آپ اسے کتنا بھی سکھائیں، جتنا مرضی پیٹ لیں، رہتا وہ گدھے کا گدھا ہی ہے۔ شاید طالب علموں کے تعلیم کی طرف راغب نہ ہونے یا تعلیمی طور پر کمزور ہونے کی وجہ ان میں بطورِ خود کوئی کمی نہیں بلکہ استادوں میں قوت برداشت کا فقدان ہے۔ مَیں تو کہوں گا کہ ان میں سے بعض کو تو شاگردوں کو پیٹنے کا نشہ ہے۔ حکایت ہے کہ ایک سکول ٹیچر کے لئے ایک رشتہ آیا۔ لڑکی والوں نے پوچھا کہ تنخواہ کتنی ہے، اس نے بتا دیا۔ پھر انہوں نے پوچھا، اوپر کی کمائی کتنی ہے تو اسے سمجھ نہ آیا۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہ کے علاوہ اور کیا کیا ملتا ہے؟ کہنے لگا روزانہ تین چار لڑکے پیٹنے کے لئے مل جاتے ہیں۔
مارک ٹاؤن کے شہرہ آفاق ناول پرنس اینڈ پاؤ پر۔۔۔ Prince and Pauper ۔۔۔ میں ایک جگہ ذکر ہے کہ بادشاہ ہنری ہشتم نے اپنے اکلوتے بیٹے کو پڑھانے کے لئے ایک استاد رکھا ہوا تھا، جب استاد کو غصہ آ جاتا تو اس کے مارنے کے لئے شہزادے کے بجائے ایک علیحدہ تنخواہ دار اسی عمر کا بچہ ملازم رکھا ہوا تھا، تاکہ استاد اس کو پیٹ کر اپنا نشہ پورا کر سکے۔
رومن اس کے برعکس تھے۔ ان کے شہزادوں کو پڑھانے کے لئے زیادہ تر یونانی غلام ہوا کرتے تھے۔ جب بچہ اپنی تعلیم ختم کر لیتا تھا تو اس کا فرض بنتا تھا کہ اپنے استاد کو اچھی طرح پیٹے۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ بھی بہت غلط بات ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ ماں باپ اپنے نرم و نازک بچے کو پڑھنے کے لئے استاد کے پاس بھیجتے ہیں اور وہ اس نازک سی کلی کو مسل دیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مارپیٹ مساجد اور مدارس میں بہت ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ہم چھٹیاں گزارنے کے لئے ایوبیہ گئے۔ وہاں ایک چھوٹی سی مسجدکے مولوی صاحب کے سوتیلے بیٹے کی ماں ہمارے پاس آئی۔ اسے اپنے بیٹے کو حافظ قرآن بنانے کا بڑا شوق تھا، تاکہ اس کے خاوند کے مرنے کے بعد وہ اس کی جگہ لے سکے۔ خیر ہم اسے بہاولپور لے آئے۔وہ لڑکا بڑے شوق سے مسجد میں قرآن پڑھنے یا حفظ کرنے کے لئے گیا۔ تیسرے دن اس نے پڑھنے کے لئے جانے سے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگا کہ مولوی صاحب بہت ظالم ہیں اور وہ چارپائی کے پائے سے پیٹتے ہیں، اس کو اپنی ہڈی پسلیوں کے ٹوٹنے کی فکر پڑ گئی۔
ہماری سوسائٹی نے غلامی کے ساتھ یہ مارکٹائی بھی قبول کر لی تھی۔ قدرت اللہ شہاب شہاب نامہ میں ذکر کرتے ہیں کہ ایک بار گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران انہیں پیسوں کی ضرورت پڑ گئی۔ اخبار میں ٹیوشن کے لئے ایک اشتہار پڑھ کر وہ اس پتہ پر پہنچے ۔ اچھے خاصے امیر لوگ تھے، لیکن ان کا 12سال کا بیٹا تعلیم کی طرف نہیں آتا تھا۔ کافی ٹیوٹر بدل لئے تھے۔ قدرت اللہ شہاب اس کے والد سے کہنے لگے کہ اس کو شاید پڑھائی کے دوران مارنا پیٹنا بھی پڑے، کیونکہ آپ کا لڑکا بہت ہی لاڈلا ہو گیا ہے اور پیار سے کسی کی بات نہیں مانتا۔ باپ نے کہا ٹھیک ہے تشدد کرو، لیکن دیکھنا کہیں اس کی ہڈی پسلی نہ توڑ دینا۔ خیر شہاب صاحب نے اندر سے دروازہ کو کُنڈی لگائی اور پہلے اس سے دنگل ہوا۔ اس کو مرغا بنوایا اور خوب مارا پیٹا۔ چند ہی دنوں میں وہ لڑکا تیر کی طرح سیدھا ہو گیا۔ دور کیوں جائیں ، ہماری مثال لیجئے، ہم جب 5سال کے ہوئے تو ہمیں ہمارے گھر کے نزدیک ہی گورنمنٹ ہائی سکول کی پہلی جماعت (کچی) میں داخل کروایا گیا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب خاص کر ہمیں کلاس میں چھوڑنے آئے کہ چودھری صاحب کا بیٹا ہے۔ کلاس ٹیچر کوئی درمیانہ عمر کا کرخت چہرے والا استاد تھا۔ کلاس بلڈنگ کے سائے میں ٹاٹوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں اپنی کرسی کے پاس ہی بٹھا لیا۔ ہم نے سمجھا کہ شاید ہم کوئی وی آئی پی ہیں اور ہمیں یہ خاص سیٹ الاٹ ہوئی ہے۔ جب دوسرے دن ہم کلاس میں گئے تو ہماری جگہ پر دوسرا لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے طیش میں آکر اسے دھکا دے کر پرے کیا اور اس کی جگہ پر بیٹھ گئے۔ لڑکے نے فوراً ٹیچر کو شکایت کر دی۔ اس بے لحاظ اور ظالم ٹیچر نے ہمیں مرغا بنا دیا، پھر اپنے کسی دوست کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔ معلوم نہیں کتنی دیر تک ہم مرغا بنے رہے۔
پہلی بار مرغا بنے تھے۔ ہر جوڑ درد کر رہا تھا اور ہم روتے جا رہے تھے ، مگر ماسٹر صاحب کو کوئی پروا نہیں تھی۔ آخر میں جب ہماری ٹانگیں جواب دے گئیں اور منہ کے بل گر گئے تو شاید اس وقت ٹیچر کو یاد آیا کہ کلاس میں ایک نیا داخل شدہ بچہ مرغا بنا ہوا ہے۔ خیر پیشتر اس کے کہ ماسٹر صاحب کچھ کہتے، ہم کھڑے ہو کر روتے روتے اپنے گھر کو چل دیئے۔ شہر میں کوئی دوسرا سرکاری یا پرائیویٹ سکول نہیں تھا۔ سوائے ایک پاٹ شالہ کے، لیکن والد صاحب سخت مذہبی خیالات کے مالک تھے اور انہیں ہندوؤں کے ادارے انتہائی ناپسند تھے، اس لئے مجبوراً اسی ظالم ماسٹر کی کلاس میں چلے گئے۔دوسری بار اس قسم کا واقعہ ہمارے ساتھ چھٹی کلاس میں ہوا۔ وہ یوں کہ اپنے گھر کے سامنے کھیلتے ہوئے ہمارا اپنے ایک ہم عمر دوست سے جھگڑا ہو گیا اور نوبت ہاتھا پائی تک آ گئی۔ ہم نے اسے نیچے گرا دیا، اس کے بال کافی لمبے تھے جو ہمارے ہاتھ میںآ گئے۔ ہم نے کھینچے تو چند ایک اکھڑ گئے اور ہم پریشان ہو گئے۔ وہ لڑکا روتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔ وہ ایک ماسٹر کا بیٹا تھا، دوسرے دن صبح کو غالباً ششماہی امتحان ہو رہا تھا اور ہم کلاس کے ساتھ سکول کے صحن میں ٹاٹ پر بیٹھے پرچہ حل کر رہے تھے کہ سکول کے ہیڈماسٹر آ دھمکےٖ۔ ہاتھ میں بید کی چھڑی تھامے انہوں نے بغیر تمہید کے ہمیں کھڑا کر دیا اور ہتھیلیوں پر بید برسانے شروع کر دیتے۔ پھر جاتے وقت تنبیہ کر گئے کہ خبردار آئندہ کسی بچے کو کچھ کہا۔ اب ہم کیا خاک پرچہ حل کرتے، ہاتھ تو چھڑیوں کی وجہ سے سوجھ گئے تھے۔ والد صاحب نے جب ان سے استفسار کیا تو کہنے لگے: ’’اگر آج یہ نہ کرتا تو کل آپ کا لڑکا غنڈہ بدمعاش بن جاتا۔‘‘
سکول ماسٹر اسی طرح بچوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر سخت سزا دیا کرتے تھے، بچوں کو خوفزدہ کیا ہوتا تھا اور ان سے جائز اور ناجائز طور پر کام لیا کرتے تھے۔ ان کی بلا سے بچوں کی شخصیت اور نفسیات پر کیا اثر پڑے گا؟ اکثر یہ بھی ہوتا تھا کہ جب کلاس میں استاد نہ ہو اور کلاس میں شور ہو تو ہیڈ ماسٹر یا کلاس ٹیچر آکر ساری کلاس کو مرغا بنا دیتے، خواہ سینئر کلاس ہو یا جونیئر ،لائق ہو یا نالائق ،سارے مرغے بنے ہوتے۔ان سرکاری سکول ماسٹروں کے تشدد کی وجہ سے ملک کو ایک فائدہ یا نقصان یہ ہوا کہ کئی پرائیویٹ سکول کھل گئے۔ پہلے تو بچے کو 6-5 سال کی عمر میں سکول میں لیتے تھے، مگر یہ سکول 3سال کی عمر کے بچے بھی داخل کرنے شروع کر دیتے ہیں۔ بچوں کو کھلاتے اور کہانیاں سناتے ہیں۔ نظمیں اور میوزک سناتے ہیں اور چند منٹ کے لئے کوئی ایک یا دو لفظ یا ایک دو تین بھی سکھا دیتے ہیں۔ بچے خوش، ماں باپ خوش۔ ہمارے چھوٹے بیٹے کی پہلی بیٹی صرف تین سال کی عمر میں بڑی خوشی خوشی سکول جاتی ہے، بلکہ چھٹی والے دن بھی سکول جانے پر تیار ہوتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کی ماہانہ سکول فیس 30ہزار روپے ہے جو باپ کی آمدنی کا اچھا خاصہ حصہ ہے۔ بڑے بیٹے کے چار بچوں کو چار سے ضرب دے دیں، اب ان کے کھانے پینے اور گھر چلانے کے لئے کیا بچتا ہو گا، آپ خود ہی سوچ لیں۔
مجھے معلوم نہیں ان پرائیویٹ سکولوں کا کیا اسٹینڈرڈ ہے۔ انگلینڈ، امریکہ، سنگاپور کی چھپی ہوئی (Printed) کتابیں تو پڑھتے ہیں، شاید ان کی شخصیت بھی گورنمنٹ کے سکولوں کے بچوں سے بہتر ہو، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ان پر سکول میں تشدد نہیں ہوتا۔ اگر بچہ سکول میں پڑھنے میں کمزور ہے تو اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔۔۔ سسٹم، ٹیچر یا طالب علم۔۔۔ ویسے ہم جانتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔ مغربی دنیا نے تجربات کرکے تعلیم کا نیا سسٹم شروع کر دیا ہے اور ہم اسی پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ بڑے عرصے سے ہمارے ملک میں شور مچ رہا ہے، لیکن ہماری گورنمنٹ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔جہاں تک ٹیچر کا تعلق ہے ،جس آدمی کو کوئی اور نوکری نہیں ملتی، وہ تعلیمی شعبے میں آ جاتا ہے۔
ان کی تنخواہ کا سکیل بہت کم ہے۔ ان کی سخت ٹریننگ ہونی چاہیے۔ مَیں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ کالج اور پروفیشنل تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی بھی ٹریننگ ہونی چاہیے،کیونکہ انہیں اپنے مضامین کا تو خوب علم ہوتا ہے، لیکن اس کو پڑھانے، یعنی ڈلیور کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔ جہاں تک ان اساتذہ کا تعلق ہے جو مارنے پیٹنے میں مشہور ہوتے ہیں، انہیں ماہر نفسیات کے پاس بھیجنا چاہیے۔ اگر پھر بھی ٹھیک نہ ہو سکیں تو انہیں پولیس کے محکمے میں بھیج دیں۔ جہاں تک طالب علم کا تعلق ہے تو سارے بچے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ چند ایک کی ذہانت زیادہ ہوتی ہے اور چند کی کم۔ چند ایک کی پڑھائی میں دلچسپی نہیں ہوتی، اس لئے یورپ کا سسٹم اختیار کر لینا چاہیے۔ اگر ایک لڑکا یا لڑکی تعلیم میں اچھا نہیں چل سکتا تو اسے ٹیکنیشنز کے سکول میں ڈالیں، اگر وہاں بھی نہیں چل سکتا تو اسے ووکیشنل سکول میں ڈالیں، تاکہ کوئی ہنر سیکھ سکے۔ مارپیٹ ذہنی مریض یا مجرمانہ ذہنیت کے سوا کچھ نہیں بناتی۔