اُستاد کی حرمت: کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں

اُستاد کی حرمت: کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں
 اُستاد کی حرمت: کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جس دن ٹی وی چینلوں پر یہ بریکنگ نیوز چلی تھی کہ ممتاز شاعر، نقاد، محقق اور اُستاد پروفیسر سحر انصاری کا کراچی یونیورسٹی میں داخلہ روک دیا گیا، کیونکہ اُن پر ایک خاتون اُستاد کو ہراساں کرنے کا کیس ثابت ہو چکا ہے تو میرے دل پر ایک چھری سی چل گئی تھی۔ ایک 72 سالہ بزرگ اُستاد پر یہ الزام اور اُس کی اِس طرح تشہیر معاشرتی زوال کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ تفصیلات معلوم کی گئیں تو عقدہ کھلا کہ دو سال پہلے ایک خاتون نے شکایت کی تھی، جس کی انکوائری اب مکمل ہوئی ہے اور انکوائری کمیٹی نے الزامات کو درست قرار دیا ہے۔ جب مَیں نے الزامات کی تفصیل پڑھی تو مجھے یوں لگا جیسے ہم سب پل صراط پر چل رہے ہیں اور ذرا سی لغزش بھی ہماری پوری زندگی کی ریاضت کو پاش پاش کر دیتی ہے۔ الزام یہ تھا کہ پروفیسر سحر انصاری نے خاتون ٹیچر کا راستہ روک کر اُن سے زبردستی ہاتھ ملایا، پروفیسر سحر انصاری نے کمیٹی کو جو بیان دیا اُس میں یہ کہا کہ یہ ایک معمول کی بات تھی کہ اساتذہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے تھے۔

اُس روز جب وہ ٹیچر بغیر سلام کئے اور ہاتھ ملائے قریب سے گزریں تو اُنہوں نے متوجہ کرنے کے لئے اُن کا ہاتھ پکڑا۔ پروفیسر سحر انصاری نے یہ بھی کہا کہ خاتون ٹیچر جسمانی طور پر اتنی فربہ ہیں کہ مجھ جیسا 72 سالہ شخص جو اب ڈھنگ سے چل بھی نہیں سکتا، اُنہیں زبردستی کیسے ہراساں کر سکتا ہے لیکن کمیٹی نے اُن کا موقف تسلیم نہ کیا اور اُنہیں واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا۔ اب کراچی کے علمی حلقے یہ کہتے ہیں کہ پروفیسر سحر انصاری جامعہ کراچی کی اندرونی سیاست کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اعزازی طور پر وہاں پڑھا رہے تھے اور اُن کے مقام و مرتبے کا کوئی شخص یونیورسٹی میں موجود نہیں تھا، اس لئے اُن سے جان چھڑانے کا یہ گھٹیا راستہ اختیار کیا گیا۔ کراچی اور ملک میں پھیلے ہوئے اُن کے ہزاروں شاگردوں میں دکھ اور غم کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر اُن کے ساتھ اپنی تصاویر اَپ لوڈ کرکے اُن کی شرافت، متانت اور بردباری کی قسمیں کھا رہے ہیں، کراچی کی نامور شاعرات اور اساتذہ بھی اُن کے ساتھ کھنچی تصویروں سے اُن کے لئے احترام اور محبت کو واضح کر رہی ہیں۔


مگر مَیں یہ سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں کتنی آسانی سے کسی کا عمر بھر کا بھرم توڑ دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی اُٹھ کر الزام لگا دے تو صفائی دینا مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ کوئی صفائی مانتا ہی نہیں ہے۔ یہ جب سے بریکنگ نیوز کی وبا چلی ہے اس نے پگڑی اُچھال پروگرام کو انتہائی آسان کر دیا ہے۔ بس کوئی نوٹیفکیشن مل جائے یا کوئی بیان دے دے، بریکنگ نیوز کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔ ہم ایک ڈاکٹر شاہد مسعود کا ذکر کرتے ہیں یہاں تو روزانہ ایسی خبریں اُڑائی جاتی ہیں، جن کا سیاق و سباق بتایا جاتا ہے اور نہ کوئی تصدیق کی جاتی ہے۔ مَیں محقق و نقاد ڈاکٹر نجیب جمال کی اس بات سے متفق ہوں کہ عمر کے اس حصے میں پروفیسر سحر انصاری پر الزام لگا کر ہم نے اپنی اقدار کو ہی مجروح نہیں کیا بلکہ ایک ایسے شخص کو زندگی کے آخری مرحلے میں دکھی کر دیا ہے، جس نے ساری زندگی علم بانٹا، اُن کا کہنا تھا کہ اگر یہ صدمہ اُن کے دل کا روگ بن جاتا ہے اور وہ دل ہار دیتے ہیں تو اُن کی موت کو کیا قتل نہیں کہا جائے گا۔ یونیورسٹیوں کے حالات اور سیاست کیا اتنے ہی زہرناک ہیں کہ عمر دیکھتے ہیں نہ مرتبہ، بس زہر میں بجھے تیر چلا دیتے ہیں، کیا جنسی ہراسمنٹ کا الزام اندھی گولی بن گیا ہے کہ جو کسی وقت بھی کسی کی عزت و احترام کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے۔


مَیں بنیادی طور پر ایک اُستاد ہوں اور زندگی کے 35 برس مَیں نے درس و تدریس میں گزارے ہیں، مَیں سمجھتا ہوں اُستاد کا احترام ججوں سے بھی زیادہ کیا جانا چاہئے کہ وہ معاشرے کو علم کے نور سے منور کرتے ہیں۔ اس لئے مَیں جب بھی کسی اُستاد کے بارے میں کوئی منفی خبر سنتا ہوں تو دل میں اک ہوک سی اُٹھتی ہے۔ آج کل بہاء الدین زکریا یونیورسٹی مسلسل خبروں کی زد میں ہے، جہاں ایک طالبہ نے اپنے کلاس فیلوز اور ایک اُستاد پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا ہے، اس سے پہلے جامشورو یونیورسٹی کی طالبات نے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا کہ اُن کے اساتذہ نے پاس کرنے کی یہ شرط رکھی ہے کہ اُن کے ساتھ تعلقات قائم کئے جائیں۔ چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیا تھا، مگر پھر شاید اس معاملے کو دبا دیا گیا، کیونکہ اس میں اساتذہ کا نام آ رہا تھا۔ ملتان کے واقعہ میں بھی طالبہ نے یہی کہا ہے کہ شعبہ سرائیکی کا ایک اُستاد پاس کرنے کے عوض تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتا تھا اور اُس کے ایماء پر اُس کے کلاس فیلوز نے اُسے ایک سال تک بلیک میل کیا۔ یونیورسٹیوں کے بعد اب کالجز میں بھی ایم اے اور بی ایس کی سطح پر سیمسٹر سسٹم رائج کر دیا گیا ہے، میرے نزدیک پاکستان میں سیمسٹر سسٹم طلبہ و اساتذہ کے لئے کانٹوں کی سیج ہے، مَیں جب پرنسپل تھا تو تمام اساتذہ کو خبردار کرتا رہتا تھا کہ وہ اپنے اختیار کو بہت احتیاط سے استعمال کریں۔ چونکہ اس سسٹم کے تحت کلاس میں پڑھانے والا اُستاد ہی پرچہ بناتا، مارک کرتا اور نمبر دیتا ہے، اس لئے اُسے بے تحاشہ اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں۔

وہ اگر مضبوط کردار کا مظاہرہ نہیں کرتا تو اُس کے سامنے ترغیبات کے کئی راستے کھلے ہوتے ہیں اور یہیں سے کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پنجاب کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں بنایا جو اساتذہ کے بے محابا اختیارات پر بھی کوئی چیک رکھ سکے۔ بورڈ کی مارکنگ میں ایک ہیڈ ایگزامینر ہوتا ہے اور اُس کے نیچے ایگزامینر کام کرتے ہیں، کوئی ایگزامینر اگر قاعدے سے ہٹ کر مارکنگ کرتا اور نمبر دیتا ہے تو ہیڈ ایگزامینر اُس کی اصلاح کر دیتا ہے۔ سیمسٹر سسٹم میں ایسا کوئی چیک نہیں، استاد کو چیف جسٹس سے بھی زیادہ صوابدیدی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، جسے چاہے جتنے نمبر دے، جسے چاہے پاس یا فیل کر دے۔ یونیورسٹیوں کے بیشتر اساتذہ اپنے اختیار کو طلبہ و طالبات کی امانت سمجھ کر استعمال کرتے ہیں لیکن چند اساتذہ جو شاید حادثاتاً اس شعبے میں آئے ہوتے ہیں، اس منصب سے انصاف نہیں کر پاتے اور انہی کی وجہ سے ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ جو تعلیمی اداروں، اساتذہ کمیونٹی اور خود معاشرے کے لئے ندامت کا باعث بنتے ہیں۔


بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں جب ڈاکٹر نصیر احمد خان وائس چانسلر تھے، جو طیارہ حادثے میں وفات پا گئے تھے تو اُنہوں نے یونیورسٹی میں ایک نظام متعارف کرایا تھا، ہر ماہ طلبہ و طالبات کو ایک پرفارما دیا جاتا تھا، جس میں اُستاد کی حاضری، مضمون پر کمانڈ، اخلاقیات اور عمومی رویے کے بارے میں سوالات درج ہوتے تھے۔ طلبہ و طالبات وہ پرفارما پُر کرکے ایک بکس میں ڈال دیتے تھے، جسے صرف یونیورسٹی انتظامیہ کھول سکتی تھی۔ ایک ملاقات میں ڈاکٹر نصیر احمد خان مرحوم نے ریذیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ پاکستان ملتان شوکت اشفاق اور مجھے بتایا تھا کہ اُنہوں نے یہ نظام غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ میں رائج کیا تھا، جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے تھے۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ سمیسٹر سسٹم ایک پریشر ککر کی طرح ہے اگر اس میں طلبہ و طالبات کے لئے بھاپ نکلنے کا روزن نہ رکھا جائے تو اُن کا دم گھٹنے لگے گا اور کئی خرابیاں پیدا ہو جائیں گی، زندگی نے اُنہیں مہلت نہ دی اور وہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں اِسے مکمل طور پر نافذ نہ کر سکے، بعد میں آنے والے وائس چانسلر نے اساتذہ ایسوسی ایشن کے دباؤ پر اسے ختم ہی کر دیا۔


یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یونیورسٹیاں اساتذہ کی سیاست کا گڑھ بن چکی ہیں، ہر گروپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح وائس چانسلر پر غلبہ حاصل کر لے، چلیں اس میں کوئی حرج نہیں مگر اِن اساتذہ تنظیموں نے کبھی اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ نہیں دی کہ اُن کی صفوں میں موجود کوئی اُستاد پوری کمیونٹی کے لئے بدنامی کا باعث نہ بنے۔ بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ جس اُستاد کے بارے میں کوئی شکایت آتی ہے، یہ ایسوسی ایشنیں اُسے بچانے کے لئے میدان میں آ جاتی ہیں مثلاً ملتان میں جس لیکچرر پر الزام لگا ہے، اُس پر اُسی کے شعبے کی چیئرپرسن نے کچھ عرصہ پہلے ہراسمنٹ کا الزام لگایا تھا، مگر ایسوسی ایشن کے دباؤ پر یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملہ دبا دیا۔ آج اس سرپرستی کی وجہ سے وہ شخص پوری یونیورسٹی اور اساتذہ برادری کے لئے بدنامی کا باعث بن گیا ہے۔ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے، یہ مثال یونیورسٹیوں پر صادق آتی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ از خود ایسا میکنزم بنائیں کہ تمام شعبوں کے اندر چیک اینڈ بیلنس قائم ہو سکے۔ خاص طور پر اساتذہ کی حرمت پر حرف لانے والے واقعات کی نہ صرف روک تھام کی جائے بلکہ جو ذمہ دار ہے اُس کی حمایت کی بجائے اسے اپنی صفوں سے باہر نکالنے کو اپنی ترجیح بنا لیا جائے تاکہ معاشرے خصوصاً والدین میں پایا جانے والا اضطراب ختم ہو سکے۔

مزید :

رائے -کالم -