75 برس کانوجوان

75 برس کانوجوان
75 برس کانوجوان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں پچیس برس کے نوجوان کی 75ویں سالگرہ کی تقریب میں موجود تھا۔ مجھے ایسی تقاریب بہت بری لگتی ہیں جن میں مجھے سٹیج پر تقریر کرنے کا موقع نہ دیا جائے مگر مجھے یہ تقریب اس کے باوجود اچھی لگ رہی تھی۔میں سوچ رہا تھا کہ ہم مرنے والوں کے بارے میں تو آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ مرحوم بہت اچھے آدمی تھے مگر زندہ لوگوں کی خوبیوں کا اعتراف نہیں کرتے، ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش نہیں کرتے۔ یہ جناب عطاء الحق قاسمی کی سالگرہ کی تقریب تھی جس کا اہتمام میرے مہربان دوست گل نوخیز اخترسمیت بہت ساروں نے کیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ تقریب کے بہت زیادہ لمبے ہونے کی ایک وجہ منتظمین اور مقررین کی لمبی فہرست کے علاوہ عطاء الحق قاسمی کی تعریفوں کے پُل تھے، ان پلوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ہم ایک پُل عبور کرتے تو دوسرا سامنے آجاتا، مجھے کئی بار یہ لگا کہ یہ کھانے تک جاری سفر میں آخری پل ہو گا اور ننانوے بار میرا اندازہ غلط نکلا ۔ کئی شرکاء زبردستی اپنا نام مقررین میں شامل کروا رہے تھے وہ تو بھلا ہو عطاء الحق قاسمی کا کہ انہوں نے اپنے بچپن اور جوانی کے بہت سارے دوستوں کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا اور جسے موقع دیا اسے دھمکی بھی ساتھ ہی دے دی کہ ان کے پاس بھی مائیک موجود ہے۔یوں اس تقریب کا ایک دکھ یہ بھی ہے کہ ہم بہت کچھ سننے سے محروم رہے جو ہم اس دھمکی کی عدم موجودگی میں سن کے لال ہو سکتے تھے۔ اب آپ خود ہی سوچئے کہ جو عطاء الحق قاسمی اس پچھہتر برس کی عمر میں اتنا رنگین سوچ ، بول اور لکھ سکتے ہیں، ان کا معاملہ پچیس پچاس برس پہلے کتنا سنگین ہو گا۔ جناب مجیب الرحمان شامی کی تقریر آخری تھی، انہوں نے کہا کہ عطاء الحق قاسمی کے بارے میں جو کچھ کہا جا سکتا تھا وہ کہا جا چکا ہے اور جو کچھ نہیں کہا جانا چاہئے وہ سب کچھ وہ بھی نہیں کہیں گے، یہ ایک درست فیصلہ تھا کہ تقریب میں بہت ساری خواتین بھی موجود تھیں۔


مال روڈ کے بہت سارے ستاروں والے ہوٹل کے ہال میں سٹیج اتنا بڑا تھا کہ اس سے بڑا سٹیج اسی صورت میں ممکن تھا کہ میاں نواز شریف سے ان کے جلسوں میں استعمال ہونے والا کنٹینر مانگ لیا جاتا مگر اس کے باوجود ( میرے سمیت) ایسے بہت سارے لوگ عوام میں بیٹھے سخت بور ہو رہے تھے جنہیں سٹیج پر ہونا چاہئے تھا اور اگر میرا سٹیج پر ہونا ہی میرٹ مان لیاجائے تو پھر پورا ہال ہی سٹیج ہونا چاہئے تھا اور نیچے ہال میں قاسمی صاحب کوتنہا بیٹھنا چاہیے تھا تاکہ ان کی انفرادیت برقرار رہے۔ سالگرہ کی تقریب سے صرف سیاسی رہنما غیر حاضر تھے ورنہ ادب اور صحافت سمیت ہر شعبے کے نمایاں لوگوں کی بھرواں موجودگی تھی اور یہ راز اس وقت کھلا جب خواتین کی ایک یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے انہیں سالگرہ کی تقریبا ت کے سلسلے میں ایک تقریب اپنی جامعہ میں منعقد کرنے کی دعوت دی تو میں نے انگلی اپنے دانتوں تلے داب لی۔عطاء الحق قاسمی کی نثر اتنی خوبصورت ہے کہ پوری تقریب میں ان کی نظم یاد ہی نہیں آئی اور جب سٹیج سیکرٹری نے بہت ڈھیر سارا وقت نثر سننے کے بعد نظم سنانے کے لئے کہا تو قاسمی صاحب نے جواب دیا کہ نظم سننے کی فرمائش کرکے بہت اچھا کیا گیا ہے کہ اگر یہ فرمائش نہ کی جاتی تو وہ بغیر فرمائش کے ہی اپنی نظم سنا نے والے تھے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ایک اصلی اور خالص شاعر ہیں ورنہ وہ اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ اس دعوت پر کیوں پڑھتے جو ایک بس کے قریب کھڑا شخص دے رہا تھا کہ جس جس نے جلالپور جٹا ں میں مشاعرہ پڑھنا ہے وہ بس میں بیٹھ جائے اور وہ بس اب تک چل رہی ہے۔ مجھے ان کی بات سن کر یوں بھی محسوس ہواکہ اگر ہم ان سے ان کی شاعری نہ سنتے اور کھانا کھا کے واپس آجاتے تو ان کے اندر کا شاعر انہیں مجبور کرتا کہ وہ ہر مہمان کے گھر جا کے اپنی شاعری سنا کے آئیں، ویسے اگر یہ صورتحال پیدا ہوجاتی تو میں انہیں اتنی زیادہ مصیبت کرتے ہوئے ان بہت سارے لوگوں کے گھر جانے کا مشورہ دینے کی بجائے کہتا کہ وہ ایک کھانے کا اور اہتمام کر لیں، ہم شاعری سننے آجائیں گے۔


یہ تقریب مجھے اس لئے اچھی لگی کہ بعض اوقات آپ کو بولنے سے زیادہ سننا اچھا لگتا ہے کیونکہ آپ اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ جو سن رہے ہیں وہ آپ کے بولنے سے زیادہ اچھا ، بہتر اور قیمتی ہے۔میں نے کہا کہ میں پچیس برس کے نوجوان کی75ویں سالگرہ کی تقریب میں شامل تھا تو مجھے اس کی وضاحت دینے میں بھی کوئی عار نہیں۔ میں عطاء الحق قاسمی کو صرف اس لئے پچیس برس کا نہیں سمجھتا کہ وہ فقرے بازی میں اب بھی کمال کی صلاحیتوں کے حامل ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ وہ اس عمر میں بھی جس اصولی موقف پر کھڑے ہیں اس پر تو ہمارے بہت سارے نوجوان دانشوروں،لکھاریوں اور اینکروں کو کھڑے ہوتے ہوئے چُک پڑجاتی ہے، منہ کو لقوہ مار جاتا ہے۔یہ یاریاں اور دوستیاں نبھانے کاکام بہت ہمت اور بہادری والا ہے اور اس کی اہمیت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب آپ جانتے ہوں کہ آپ جس مشکل کا شکار ہیں اس سے آپ کے دوست آپ کو نکال سکتے ہیں مگر وہ دوست کم از کم میر ی معلومات کی حد تک خاموش رہتے ہیں۔مجھے واقعی علم نہیں کہ پی ٹی وی کی چئیرمینی سے استعفا دینے کے بعد ان کی میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف سے کھانوں سے بھری میز پر کیا گفتگو ہوئی مگر اس سالگرہ کی تقریب کے اگلے ہی روز میرے پاس وہ موقف ضرور موجود ہے جو ان کی بطور چئیرمین پی ٹی وی تقرری کے حوالے سے سرکاری طور پر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے اختیار کیا گیا ہے۔ میرے پیارے وجاہت مسعود اس پر کلبلا رہے تھے، تلملا رہے تھے اور میں ان کو بتا رہا تھا کہ اس وقت نواز شریف کے تمام دوستوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا ہے اور دلچسپ امر تو یہ ہے کہ یہ سلوک کرنے والوں میں وہ بہت آگے ہیں جن کے عہدے ہی نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے مرہون منت ہیں ۔ میں ایک طر ف نواز شریف کے بڑے بڑے جلسے دیکھتا ہوں تو اندازہ نہیں لگا پاتا کہ سابق وزیراعظم اتنے کمزور کیوں ہو گئے ہیں کہ اپنے دوستوں کا ہاتھ تک نہیں تھام سکتے۔


آج سینکڑوں نہیں ہزاروں کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر سلطان کے خلاف کلمہ حق کہنے کا سلیقہ جناب عطاء الحق قاسمی سے سیکھا ، یہ بات کہنے کا سلیقہ بھی عجب شے ہے کہ آپ بڑبولے سیاستدان شیخ رشید کا سارا قرض ایک ہی فقرے میں چکا دیں کہ شیخ رشید کو سیاست میں وہی مقام حاصل ہے جو بیماریوں میں بواسیر کو ہے۔ اس بہادر، شوخ اور ٹیلنٹڈ نوجوان کو سالگرہ مبارک کہ باقی باتیں سوویں سالگرہ کے کالم میں کریں گے۔

مزید :

رائے -کالم -