لاہور ہائیکورٹ نے گرین ایریاز پر بنی ہاؤسنگ سوسائٹیو ں کا ریکارڈ طلب کر لیا
لاہور(نامہ نگارخصوصی)چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس محمد قاسم خان نے گرین لینڈ ایریاز میں قائم غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف دائردرخواست پرچیف سیکریٹری پنجاب سمیت متعلقہ افسروں کو کل 4 فروری کوطلب کرلیاہے،فاضل جج نے شہری مبشر الماس کی اس درخواست پر ایل ڈی اے میں دو سے زائد دفعہ ڈیپوٹیشن پر تعینات افسروں کی فہرست اورگرین ایریاز پر بنی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نقشوں کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں،عدالت نے درخواست گزار کو تمام ٹی ایم اوز، اسسٹنٹ کمشنرزاوررجسٹرار کوآپریٹو سوسائٹی کو فریق بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے ان افسروں کو بھی آئندہ سماعت پر ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیاہے،چیف جسٹس نے متعلقہ افسروں کوخبر دار کیا کہ وہ اپنے کام سیدھے کرلیں نہیں تو نتائج بھگتنا پڑیں گے، میرا ایک دائرہ اختیار ہے اس میں رہ کر دیکھوں گا کس افسر نے کیاکیا، لاہور میں گرین لینڈ ایریاز پر جہاں غیر قانونی کام ہورہا ہے اس کی ذمہ داری ڈی جی ایل ڈی اے پرہوگی تاہم انہوں نے ہدایت کی کہ کسی بھی عدالت چاہے سول کورٹ ہی کیوں نہ ہواس کے حکم کا احترام کیا جائے،فاضل جج نے دوران سماعت قراردیا کہ ایک کروڑ سے زائد آبادی کو سانس لینے کے لئے صاف ستھرا ماحول میں فراہم کرنا ہے، گرین ایریاز پرہاؤسنگ سوسائیٹیوں کے قیام کے حوالے سے چیف سیکرٹری پنجاب پیش ہوکر وضاحت دیں، جن ڈیویلپرز نے اربوں روپے کمائے اس کو پوچھتے نہیں، ایک غریب آدمی جس نے گھر بنایا اس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، ایل ڈی اے نے کتنے ایسے سوسائٹیز مالکان کو سزائیں کرائی ہیں، فاضل جج نے عدالت میں موجود افسروں اور ایل ڈی اے کے لیگل ایڈوئزر سے کہا کہ آپ کے ایس او پیز کیا ہیں، انتہائی بدقسمتی ہے کہ حالات اتنے خراب ہیں، ٹی ایم اے کی منظوری کے بعد سکیم ایل ڈی اے کے پاس کیسے آتی ہے؟کیا ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسر سونے کی کان سے حصہ لینے آتے ہیں، عدالت کے استفسار پر ایل ڈی اے کے وکیل نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے آرڈرز میں حکم امتناعی شامل نہیں،کمشنر کی سربراہی میں کمیٹی سوسائٹیز کو منظور کرتی ہے، چیف جسٹس نے پوچھا 62 منظور شدہ سوسائٹیز کو کس نے اجازت نامہ دیا؟ٹی ایم اے کا سوسائٹیز منظور کرنے کا طریقہ کار کیاہے؟اگر ٹی ایم اے نے درست طریقہ کار اختیار کیا ہے تو پھر عدالت دیکھے گی اس پر کیا فیصلہ کرنا ہے، میرا بنیادی مقصد شہر کو بہتر بنانا ہے، شہریوں کا بہتر ماحول حاصل کرنا ان کا آئینی حق ہے، عدالت نے ڈی جی ایل ڈی اے سے کہا کہ اگرآپ بہتر انداز میں معاونت کریں، نہیں کرسکتے تو سیشن جج کی سربراہی میں کمیشن بنا دیتا ہوں، کل تک بتا دیں نہیں تو کمیشن بنادوں گا، عدالت کے استفسار پر بتایا گیا کہ شالیمار، وکٹوریہ، گرین ولازودیگر سوسائٹیز گرین ایریاز پر 2020 ء میں منظور ہوئیں، بحریہ ارچرڈ فیز ٹو آٹھ ہزار کنال پر مشتمل گرین ایریاز پر بنی ہے، عدالت نے پوچھا کہ ٹی ایم اے اور ریونیو ریکارڈ کیا مختلف ہیں؟ کیا ایس او پیز ہیں؟سرکاری وکیل نے کہا ڈویلپمنٹ کے لئے ایل ڈی اے نام ٹرانسفر ہو جاتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ مسجد، سکول، سڑکیں کس کھاتے میں ڈالتے ہیں؟یہ خلا کیسے پر ہوگا، اس طرح تو غیر قانونی تعمیرات ہوجائیں گی،سرکاری وکیل نے کہا جی غیر قانونی تعمیرات تو ہوئی ہیں، 241 گرین لینڈ ایریاز پر بنائی گئی ہاؤسنگ سوسائٹیز غیر قانونی ہیں،چیف جسٹس نے کہا توپھر کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ایل ڈی اے نے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف اب تک کیا کارروائی کی ہے؟ایل ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ جوسوسائیٹیزٹی ایم اے لاہور نے منظور کیں وہی کارروائی کرسکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا اگر ماسٹر پلان کی خلافِ ورزی ہو تو ایل ڈی اے کیا کارروائی کرے گا؟ایل ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ ایل ڈی اے ماسٹر پلان کے رولز کے تحت کارروائی کرے گا، اب تک 115 سوسائٹیز کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صرف عدالت کو دکھانے کے لیے رسمی کارروائی کرتے ہیں، یہ سارے افسر کیا کرنے بیٹھے ہیں،کیوں کارروائی نہیں کرتے،اس بابت وضاحت کے لئے چیف سیکرٹری پنجاب کو طلب کررہے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ