اور کال نہ مل سکی
پیارے کپتان کو مَیں نے کال ملانے کی اَن تھک کوشش کی، مگر کامیابی نہ مل سکی، مَیں بھی اپنا نام اُن شہیدوں میں لکھوانا چاہتا تھا، جو وزیراعظم سے براہِ راست فون پر مکالمے کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے،مگر یہ ظالم فون کا نظام میری کال کو وزیراعظم تک پہنچانے میں ناکام رہا۔ مسلسل مصروف ٹون میرا منہ چڑاتی رہی۔ مَیں نے بھی بہت سی لچھے دار تعریف پر مبنی باتیں ذخیرہ کر رکھی تھیں، جو کال ملنے پر وزیراعظم کے گوش گزار کرتا۔اُنہیں قوم کا نجات دہندہ، ایماندار اور جری رہنما قرار دیتا۔ یہ بھی کہتا کہ ہم سب نے آپ ہی سے توقعات باندھ رکھی ہیں،آپ ہی ہماری آخری امید ہیں، آپ کے آنے سے جو بہار آئی ہے، قائداعظمؒ کے بعد سے قوم اُس کی راہ دیکھ رہی تھی،
آپ نے ریاست ِ مدینہ کو ایسے احسن طریقے سے پروان چڑھایا ہے کہ ہر شخص سرشار ہے،خوش ہے اور آپ کو دُعائیں دے رہا ہے،مگر بُرا ہو اُس ایک نمبر کا جو ملنا تھا نہ ملا، نجانے وہ کون خوش قسمت تھے، جن کی وزیراعظم سے کالیں ملیں اور انہوں نے پیارے کپتان تک بنفس ِ نفیس اپنی آواز پہنچائی۔بعد میں میری بیٹی نے مجھے دلاسہ دیا کہ ابا جی پریشان نہ ہوں، آخر بائیس کروڑ عوام کے لئے ایک نمبر دیا گیا تھا، کتنوں کی کال مل سکتی تھی۔ دوسروں نے جو باتیں کیں انہیں آپ اپنی باتیں سمجھ کر مطمئن ہو جائیں، اُن سب نے بھی وہی کہا ہے جو آپ کہنا چاہتے تھے۔ سب نے وزیراعظم عمران خان کو آخری امید ہی تو کہا،انہیں قوم کا نجات دہندہ بھی قرار دیا اور سب سے بڑھ کر سوال بھی وہ کئے جن کا جواب کپتان ہمیشہ دیتے آئے ہیں،گویا اُن کا مرغوب ترین موضوع ہیں،مَیں اپنی بیٹی کی باتیں سن کر کچھ حد تک ٹھنڈا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ کپتان نے کتنا بڑا رسک لیا کہ براہِ راست عوام کے سامنے آ گئے۔ کوئی نون لیگی فون کر کے انہیں دو چار جلی کٹی سنا دیتا تو کیا ہوتا۔
اتنا اہم قدم اٹھانے پر بھی کچھ لوگ خوش نہیں ہو رہے۔ یہ قوم واقعی ناشکری ہے۔اب یہ کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کی یہ عوامی رابطہ مہم ایک طے شدہ ڈرامہ تھی۔ پہلے سے بتائے گئے سوالات تھے اور وزیراعظم نے اُن کے ڈٹ کر جوابات دیئے،یہ سوال تو اُن کے لئے ایک فضول باؤلر کی حلوہ باؤلنگ کے مترادف تھے۔ انہوں نے خوب چوکے چھکے لگائے، بعض سٹریل مزاج لوگوں نے تو یہ الزام بھی دھر دیا کہ جن لوگوں کی کالیں ملیں وہ درحقیقت اُسی جگہ ایک دوسرے کمرے میں بیٹھے تھے اور یہ سارا کام ہاٹ لائن پر ہو رہا تھا۔ بس خیال یہ رکھا گیا کہ کال کرنے والوں کی نمائندگی چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت سے ضرور ہو، تاکہ قومی یکجہتی کا خوبصورت امتزاج پیش کیا جا سکے۔
ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بال کی کھال نکالتے ہیں، کبھی اچھے کام کی تعریف نہیں کرتے، سیاسی مخالف میں حد سے گزر جاتے ہیں۔ ایک شخص نے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ لگائی کہ اس کال ڈرامے میں سب سے اچھی پرفارمنس سینیٹر فیصل جاوید کی رہی، جو ہر ٹیلی فون کال سے پہلے زوردار آواز میں پوچھتے تھے، اگلا کالر کون ہے ہمارے ساتھ، حالانکہ اُن کے پاس جو سکرپٹ موجود تھا، اُس پر ہر کالر کا نام و پتہ اور سوال لکھا ہوا موجود تھا۔ اب ایسی بے پرکی اڑانے والے کو آپ کیسے سمجھا سکتے ہیں،حالانکہ سب سے اچھی پرفارمنس کپتان کی رہی،جنہوں نے کچھ دیئے بغیر، کوئی اعلان کیے بغیر یہ کال سیشن کامیابی سے نمٹا دیا اور ڈیڑھ گھنٹے تک پوری قوم کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول رکھی۔
میری کال بھی مل جاتی تو مَیں نے بھی یہی سوال کرنا تھاکہ آپ این آر او کیوں نہیں دیتے، قبضہ گروپوں کے خلاف کامیاب آپریشن کیوں کر رہے ہیں عوام کی حالت کیسے بدل رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر آپ کی وجہ سے قوم میں جو حوصلہ اور خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے اس کے لئے آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟یقینا ایسے سوالات پر کپتان جی کا جوشِ خطابت دوچند ہو جاتا۔وہ مجھے شاباش بھی دیتے اور تین مرتبہ میرا نام لے کر میری تعریف بھی کرتے،مگر بُرا ہو ٹیلی فونک نظام کا یہ خوشگوار ساعت میری زندگی میں نہیں آ سکی۔ خیر میری کمی دوسرے کالرز نے پوری کر دی، وہی سوالات پوچھے جن کا کپتان جواب دینے کے لئے بے تاب رہتے ہیں۔جب ایک شخص نے کال کر کے بتایا کہ وہ غریب آدمی ہے اور ایک بااثر شخص نے اُس کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے تو وزیراعظم عمران خان نے فوراً جواب کا رُخ مسلم لیگ(ن) کی طرف گھما دیا اور بتایا کہ قبضہ مافیا کے خلاف انہوں نے اعلانِ جنگ کر رکھا ہے اور اربوں روپے کی سرکاری اراضی چھڑوا لی گئی ہے۔اُس غریب آدمی کی داد رسی ہوئی ہے یا نہیں البتہ اُس کے سوال کی وجہ سے کپتان کو اپنے سیاسی حریفوں کی گت بنانے کا موقع ضرور مل گیا۔
مجھے کسی نے بتایا کہ1997ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی یہ شوق چرایا تھا کہ وہ عوام سے براہِ راست فون پر بات کریں۔انہوں نے بھی اسی قسم کی منڈلی جمائی تھی، لیکن پہلے ہی تجربے سے اُنہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ ڈرامہ چلنے والا نہیں، اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے، لوگ بہت سیانے ہو گئے۔ اڑتی چڑیا کے پَر گن لیتے ہیں، انہیں بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ سمندر جیسے بڑے مسائل میں گھرے عوام کو ایک پیالہ پانی پر ٹرخایا جائے تو اُن کی تسلی کیسے ہو گی۔ چند لوگ اگر وزیراعظم سے بات کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو اس کا عام آدمی کو کیا فائدہ ہو گا۔وزیراعظم کی اگر نظام پر مضبوط گرفت ہو تو اوپر سے لے کر نیچے تک موجود سرکاری عمال کی وجہ سے اُنہیں عوام کے ہر دُکھ درد کا علم ہو۔ ایسی شعبدہ بازیوں سے سیاہ کو سفید نہیں بنایا جا سکتا۔ پوری قوم کو ایک نمبر دے کر ایک گھنٹے تک کال ملانے کی اذیت میں مبتلا کر کے یہ کیسا ریلیف دیا گیا ہے، وزیراعظم نے یہ کال ملاؤ شو دوبارہ کیا تو مَیں کال ملنے پر ان سے یہ سوال ضرور پوچھوں گا۔