بک شیلف: تفہیمِ اقبال……
کتاب کا نام: تفہیمِ اقبال: شکوہ و جواب شکوہ
مصنف: لیفٹیننٹ کرنل غلام جیلانی خان
تبصرہ نگار:زکی نقوی لیکچرار PAF کالج، سرگودھا
سن اشاعت:2020ء
صفحات: مجلد (144صفحات)
پبلشرز: اردو اکیڈمی، پاکستان۔ لاہور…… 25 سی لوئر مال لاہور
قیمت: 150روپے (علاوہ ڈاک خرچ)
……………………
یہ کتاب (بلکہ 144صفحات پر مشتمل اسے ایک کتابچہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا) میں نے بالخصوص سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کے لئے لکھی ہے۔ پبلشرز سے میں نے یہ بھی گزارش کی کہ مجھے اس کا کوئی اعزازیہ نہ دیا جائے اور اس کی جگہ اس کی قیمت کم سے کم رکھی جائے۔ چنانچہ یہ کتاب اب اردو اکیڈمی پاکستان لاہور۔ فون نمبر0300-4669638/0333-4182396 سے صرف 150/-روپے میں مل سکتی ہے۔ یہ قیمت ڈاک خرچ کے علاوہ ہے۔ خریدار طلباء و طالبات سے یہ کہوں گا کہ وہ لاہور میں اپنے کسی جاننے والے کی معرفت اسے منگوالیں کیونکہ آج کل ڈاک خرچ بھی ’کافی سے زیادہ‘ مہنگائی کی زد میں آ چکا ہے۔
میں زکی نقوی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اتنا متوازن اور پُرمغز تبصرہ لکھا ہے۔
غلام جیلانی خان
اقبال ہم مسلمانانِ برصغیر کی تہذیبی شناخت کا سب سے نمایاں خدوخال بن چکا ہے، جس کی شاعرانہ عظمت اور بلندی ء افکار کا سکہ تمام مشرق میں چلتا ہے اور جس کے کلام کو نظر انداز کرکے کبھی مشرق کو نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ یوں کہنا بھی ضروری ہے کہ مغرب کبھی مشرق کو نہیں سمجھ سکتا۔ اسلامی تہذیب کی حیاتِ نو کا ناآسودہ خواب جب بھی کسی مسلمان مفکر، صاحبِ خرد دانش ور یا دانش جُو کے دل میں انگڑائی لیتا ہے تو وہ اقبال کے کلام میں آسودگی کی پہلی جھلک حاصل کرتا ہے۔ علاقائی ریاستوں کی برخُود غلط تحریکوں، لسانی اور فرقہ پرستانہ تقسیم کے اس عہد میں ہمارے پاس اگر کوئی پناہ گاہ میسر ہے تو وہ پاکستانی قومیت کے اس خیال اور عقیدے میں ہے جو گزشتہ صدی کے یورپ کی نسل پرستانہ وطنیت کے برعکس ہے اور اقبال کے افکار سے ہی اپنی روشنی اور چاشنی حاصل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نظامِ فکر میں تفہیمِ اقبال کی اہمیت پہلے سے فزوں تر ہے اور ایسے میں نسلِ نو کو اقبال سے روشناس کرانے کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اقبال شناسی کے لنگر سے ہی نسلِ نو کی کشتی اپنی تہذیب کی منزل پر کھڑی رہ سکتی ہے ورنہ فکری گمراہی کے طوفان اور تہذیبِ مغرب سے مرعوبی کی بڑھتی روش کے تھپیڑے خدا جانے ہمیں کہاں لے جائیں۔
دریں حالات نوجوانوں کی ذہنی اُفتاد اور قابلیت کو بالخصوص مدنظر رکھ کر اور اس کی لسانی سمجھ بوجھ کے مطابق کلامِ اقبال کی تشریح و تفہیم کا فریضہ اردو کے ہر استاد کے کندھوں پر ایک بھاری اور اہم ذمہ داری ہے۔ شکوہ اور جواب شکوہ اقبال کی ان اہم نظموں میں سے ہیں جو نصابی اور غیر نصابی اہمیت کی وجہ سے بھی اور ایک سیاسی تاریخی شعور کی بیداری کے لئے بھی سمجھنی بہت ضروری ہیں۔ کرنل جیلانی نے جو اپنی عسکری تحریروں کے ادبی رنگ، اقبال شناسی اور اردو کے عشاق میں بلند مقام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، پہلے بھی ”اقبال کے عسکری افکار“ کے عنوان سے ایک پُرمغز تحقیقی کتاب لکھ چکے ہیں، اس دفعہ انہوں نے سکینڈری سکول، کالج اور یونیورسٹی کے نو عمر طلباء کے لئے بالخصوص اقبال شناسی کی مبادیات پر قلم اٹھایا ہے اور تفہیمِ اقبال کو آسان بنایا ہے۔
”تفہیم اقبال: شکوہ۔ جواب شکوہ“ ایک مختصر سی کتاب ہے جسے پڑھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ خالصتاً طلباء کے لئے ہی نہیں بلکہ اساتذہ کے لئے بھی ایک رہنما کتاب ہے کہ اقبال کو کس طرح پڑھایا جائے، بلکہ اردو شاعری کی تشریح و تفہیم کی تکنیکیں بھی سیکھنے کا موقع اس کتاب کے مطالعے سے بایقین ملتا ہے۔
اقبال نے نظم ”شکوہ“ یورپ سے واپسی کے ایک سال بعد 1909ء میں لکھی اور انجمنِ حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں تحت اللفظ میں پڑھ کر سنائی۔ اقبال یورپ سے واپسی پر جس ذہنی کشمکش میں تھے اور جس خیال کے تحت انہوں نے شعرگوئی ترک کرنے کا فیصلہ کیا، مصنف نے حرفِ آغاز میں اس قصے کے اجمال کے ذریعے ایک نئے اقبال شناس بلکہ میں کہوں گا کہ نوآموز و نووارد ”اقبال جُو“ کے لئے دلچسپی کا عنصر پیدا کیا ہے۔ پھر کیا ہوا کہ اقبال نے دوبارہ شعرکہنے پر کمر باندھی اور ”شکوہ“ جیسی نظم لکھ ڈالی، یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ مسلم تہذیب و تمدن کے زوال اور اس کے مدارج اور مراحل کا ذکر، نیز اس کا دکھ درد، ”شکوہ“ میں ملتا ہے اور اس کے احساسِ زیاں کو بیدار کرنے کے لئے اس کی تشریح اور تفسیر نژادِ نو کے ذہنوں ہونا ضروری ہے۔ اس کتاب کی زبان کے بارے میں یہ کہنا مناسب ہے کہ اس کا اسلوب ایک لیکچر کا سا ہے جس میں بورکر دینے والی ادبی زبان اور خالصتاً ادبی اصطلاحات سے طلبا کو بچایا گیا ہے اور برمحلِ ضرورت انگریزی مترادفات کا سہارا بھی لیا گیا ہے،
جس سے تشریح اور تفسیر کا حق ادا ہو گیا ہے۔ اسمارٹ فون استعمال کرنے والی نوجوان نسل کو اقبال کا کلام سمجھانے کی اس سے بہتر کوشش معاصر لکھاریوں اور اقبال شناسوں میں نہیں ملتی۔ سوشل سائنس، جغرافیہ اور ہسٹری کی بہترین سمجھ بوجھ کو بروئے کار لا کر ”شکوہ“ اور ”جوابِ شکوہ“ کے سیاسی، تاریخی اور جغرافیائی حالات کو بخوبی واضح کیا گیا اور آسان الفاظ میں سمجھایا گیا ہے۔ یورشِ بلغار، شانِ کئی، بحرِ ظلمات، حُدی اور تلقینِ غزالی جیسی تلمیحات کو بہت جامع اور دلچسپ پیرائے میں تاریخی، جغرافیائی پس منظر کے ساتھ واضح کیا گیا ہے اور ان جیسی دیگر مثالیں بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی طرح خلافتِ حق اور خلیفہ کے Concept کو جس انداز سے عام فہم اور سادہ روش قاری کے لئے واضح کیا ہے وہ بھی داد دینے کے لائق ہے۔ نفسیاتی تجزیہ بھی خوب ہے کہ ایک شاکی جب متکلم ہوتا ہے تو اس کی نفسیات کس طور اپنے غاطب سے تعامل کر رہی ہوتی ہے۔ مصنف ایک مصرع پر، کہ
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
تشریح کرتے ہوئے اپنی ذات کے ایک دکھ سے ٹھوکر کھا کر چونکتے ہیں تو وہ سطور بلاشبہ اس تحریر میں موضوع سے انحراف کی بجائے ایک ایسا تاثر دیتی ہیں کہ ایک کتاب نہیں، بلکہ گوشت پوست کا ایک جیتا جاگتا انسانی اور ایک کہن سال پروفیسر ہے جو سامنے کھڑا لیکچر دے رہا ہے۔ طلباء اس کتاب میں ایسے نکتوں کا لطف بھی لیں گے۔
جہاں نظم کے، خوشونت سنگھ کے انگریزی اور انور انیق کے پنجابی تراجم میں سے مثالیں، تقابل اور بہتر تفسیر کے لئے دی گئی ہیں، وہ انتخاب بھی لطیف لے کر پڑھنے کا ہے۔ مثال کے طور پر ’شکوہ‘ کا ایک اردو بند اور ایک پنجابی ترجمے کا بند پیش ہے۔
بُت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے
ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہان گئے
منزلِ دہر سے اُونٹوں کے حُدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں؟
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟
بُت کہندے بُت گھر وچ ربّ پچھانن والے ٹُر گئے
اونہاں نو چاء چڑھیا، حرم سنبھالن والے ٹُر گئے
جگت ٹھکانے اتوں اوٹھی گاون والے ٹُر گئے
کچھے مار کتاب اللہ نوں جانن والے ٹُر گئے
دند کُفر پیا کڈھے تَینوں لج وی اے کہ نئیں اے؟
اپنی یکتائی دا بھورا چج وی اے کہ نئیں اے؟
ایسے ’لیکچر‘ طلباء میں ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے بلکہ ذوق بیدار کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کتاب اقبال شناسی کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق کی پرورش کی خدمت بھی سرانجام دیتی نظر آتی ہے۔ لسانی اعتبار سے کلام کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ معنوی خوبیاں ہر شرح میں بیان کی جاتی ہیں اور بنیادی طور پر یہی دو چیزیں ہیں جو امتحانات میں بھی تشریح کے سوالات حل کرتے ہوئے مدنظر رکھی جاتی ہیں۔ یہ دو اسکل (Skills) طلباء میں پیدا کرنا اردو اساتذہ کے لئے ایک چیلنج ہوتا ہے، مگر ایسی کتابوں کے مطالعے سے بالعموم اور اس، زیرِ تبصرہ کتاب کے مطالعے سے بالخصوص اس اسکل (Skill)کو خوب تقویت ملتی ہے۔
کتاب کے پیش لفظ میں کتاب کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا صاحب (پروفیسر ایمریٹس، پنجاب یونیورسٹی) کے الفاظ اس کتاب کی تائید کے لئے سند ہیں:
”فکر و فنِ اقبال کی تفہیم و تحسین کے لئے اقبالیات سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو بڑی توجہ سے اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے“
فی زمانہ جب طلبا کتاب خوانی سے دور ہیں اور اقبال شناسی سے کوسوں دور،تو فقط 144صفحات کی مختصر کتاب لکھنے میں یہ خوبی بھی مضمر ہے کہ طلباء کے لئے اس کا مطالعہ زیادہ دقت طلب اور وقت کا متقاضی نہیں ہوگا۔ لیکن یہ 144صفحات طلباء کے لئے ایک جہانِ دیگر کا دروازہ کھولنے والے ہیں۔ اردو اکادمی پاکستان (لاہور) نے کتاب کی طباعت کے لئے معیاری اور دیدہ زیب میٹریل / سرورق کا انتخاب کیا ہے۔ 150روپے قیمت گرانی کے اس دور میں حیرت انگیز ہے، جہاں فاسٹ فوڈ کی دلدادہ نوجوان نسل بیٹھے بیٹھے ہی فقط تفریحاً ہزار روپے کا ”پیزا“ اڑا جاتی ہے۔