بلدیاتی اداروں کے آئینی اختیارات سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس گلزار احمد جاتے جاتے ایک اہم کیس کا فیصلہ سنا گئے۔ یہ کیس سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء سے متعلق تھا، جسے ایم کیو ایم نے 2017ء میں چیلنج کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس کی بابت 26اکتوبر 2020ء کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے یکم فروری 2023ء کو سنا دیا گیا۔ اس فیصلے کے لوکل باڈی سسٹم کی بہتری پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں وہ رہنما اصول بھی وضع کر دیئے ہیں جو آئین کی بنیادی روح کے مطابق مقامی حکومتوں کے نظام کو چلانے کے لئے ضروری ہیں۔ ہماری صوبائی حکومتوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ بلدیاتی اختیارات بھی وہ استعمال کریں حالانکہ آئین کی منشاء کے مطابق یہ مقامی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ سندھ کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے ذریعے مقامی حکومتوں کے بہت سے اختیارات سلب کر لئے گئے تھے۔ خاص طور پر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن اس کا ہدف تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے لوکل گورنمنٹ اختیارات کے تحت مقامی حکومتیں کام کرتی ہیں۔ آئین کے تحت بلدیاتی اداروں کے مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات یقینی بنانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آئین کا آرٹیکل 140اے اس حوالے سے بالکل واضح ہے، قوانین کو اس آرٹیکل سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی شق نمبر74اور 75 کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کا اختیار بھی کالعدم قرار دے دیا ہے کہ لوکل گورنمنٹ کا قیام آئین کے آرٹیکل 140اے کے تحت عمل میں آتا ہے۔ اس شق کی روح کے مطابق قوانین بنانا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ہر قانون کو آرٹیکل 140اے سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ ماسٹر پلان بنانا اور اس پر عملدرآمد کرانا بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات ہیں، ان اختیارات کے تحت آنے والا کوئی نیا منصوبہ صوبائی حکومت شروع نہیں کر سکتی۔ عدالت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایکٹ کو آئین کے مطابق ڈھالنے کی ہدایت جاری کی، جبکہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قوانین کو بھی آئین کی روح کے مطابق ڈھالنے کا حکم جاری کیا۔ اسی طرح کی ہدایت لاڑکانہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ضمن میں بھی دی گئی۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ان شقوں میں تبدیلی کی جائے جن میں صوبائی حکومت اور مقامی حکومتوں کے درمیان اختیارات میں تضاد ہے۔ اس کے لئے آئین کے آرٹیکل 140اے کو سامنے رکھا جائے جس میں اس حوالے سے واضح اصول متعین کر دیئے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین کی فتح قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس فیصلے پر عملدرامد کے لئے وہ ہر فورم پر جائیں گے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب سندھ میں بلدیاتی قانون کے حوالے سے ایک بے چینی موجود ہے۔ ریلیاں نکل رہی ہیں، دھرنے دیئے جا رہے ہیں اور تصادم کی صورتِ حال پیدا ہو رہی ہے۔ یہ فیصلہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ ہی سے صوبائی اور مقامی حکومتوں میں اختیارات کے حوالے سے کھینچا تانی رہی ہے۔ صوبائی حکومت چونکہ زیادہ طاقتور ہوتی ہے اس لئے مالی، سیاسی اور انتظامی اختیارات اپنی مرضی سے استعمال کرتی ہے جس سے مقامی حکومتوں کی افادیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ قریباً آٹھ سال بعد سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی کئی شقیں کالعدم ہو گئی ہیں اور مقامی حکومتوں کے لئے ایک نئی امید پیدا ہو گئی ہے۔ ہمارے شہروں کے مسائل کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ مقامی حکومتوں کے پاس وسیع مالی اور انتظامی اختیارات نہیں ہوتے۔ انہیں ہر معاملے میں صوبائی حکومت کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر آئین کے مطابق بلدیاتی اداروں کو ان کے اختیارات دے دیئے جائیں تو وہ ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کا نظام اسی نظریئے پر چلتا ہے کہ جو روز مرہ کے مسائل ہیں وہ مقامی حکومتیں حل کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں ان حکومتوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے، ہمارے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ارکان بھی یہ نہیں چاہتے کہ مقامی حکومتوں کو اختیارات ملیں، وہ بھی گلی محلے اور گلیاں، نالیاں بنوانے کی سیاست کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ آئین کے تحت یہ ان کی ذمہ داری نہیں۔ وزیراعظم عمران خان ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ مقامی حکومتوں کا ایک بااختیار نظام ان کا خواب ہے۔ خیبرپختونخوا میں انہوں نے اسے متعارف بھی کرایا، وہ اگر یہ بات کہتے ہیں تو یہ عین آئین کی روح کے مطابق ہے۔ اس میں اگر کوئی ابہام تھا بھی تو وہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد دور ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ فیصلہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے خلاف آیا ہے تاہم اس کی افادیت پورے ملک کے لئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اس فیصلے پر عملدرامد کے لئے ایک آئینی کمیٹی بنائے جو پورے ملک کے لئے ایسا بلدیاتی قانون منظور کرے جو آئین کے آرٹیکل 140اے کی روح کے مطابق ہو۔صوبوں کو اسے اپنانے پر قائل کیا جانا چاہیے۔ یہ جھگڑا ختم ہونا چاہیے کہ صوبائی حکومت کے اختیارات کیا ہیں اور مقامی حکومت کن اختیارات کے تحت کام کرے گی۔ اس فیصلے کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کو مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ گویا وہ اپنے علاقے اور دائرے میں رہ کر آزادانہ کام کر سکتی ہیں۔ عام طور پر صوبائی حکومتیں مقامی حکومت سے پوچھے بغیر شہر کا ماسٹر پلان تبدیل کر دیتی ہیں، یا پھر کوئی ایسا منصوبہ منظور کر لیتی ہیں جو مقامی حکومتوں کے لئے مسائل کا باعث بن سکتا ہے اور ان کے مالی اختیارات پر اس سے زد پڑتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے میں واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ ماسٹر پلان بنانا اور اس پر عملدرآمد کرانا مقامی حکومت کی ذمہ داری ہے، صوبائی حکومت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ دوسرے صوبے بھی اس بات کو یقینی بنائیں کہ فیصلے میں مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنے کے لئے جن پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے، ان پر صدق دل سے عمل کیا جائے، تاکہ عوام کو ایک ایسا شفاف، بااختیار اور نتیجہ خیز بلدیاتی نظام میسر آ سکے جو ان کے بنیادی مسائل حل کر سکے۔