جب برگساں کی شہرت کا ستارہ اپنی آب و تاب کھونے لگا
تحریر: ظفر سپل
قسط:110
جون 1920ءمیں کیمبرج یونیورسٹی نے اسے ڈاکٹر آف لیٹرز (Doctor of Letters) کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ ”ماڈرن فلاسفی کی مسند“ اب بھی اسکے پاس تھی، مگر”کالج آف فرانس“ نے اسے لیکچر دینے کی پابندی سے آزاد کر دیا تاکہ وہ تمام وقت اس پراجیکٹ پر یکسوئی سے کام کر سکے، جس کا موضوع اخلاقیات، مذہب اور سوشیالوجی تھا۔
1922ءکے موسمِ بہار میں آئن سٹائن، فرنچ سوسائٹی آف فلاسفی (French Society of Philosphy) میں آیا اور اس نے برگساں کی تقریر میں کئے گئے سوالات کے مختصر جوابات دئیے۔ اسی سال کے آخر میں برگساں کی کتاب ” برگساں اور آئین سٹائن کی کائنات“ (Bergson & Einsteinian Universe) شائع ہوئی۔ یہ ایک کمتر درجے کا کام تھا۔ ظاہر ہے، برگساں کو طبعیات کے علم پر وہ دسترس حاصل نہیں تھی، جو اس کام کے لیے درکار تھی۔ اس کے علاوہ اس کی نظر طبعیات کی ہم عصر ترقیات پر بھی نہیں تھی۔1927ءمیں جب وہ پیرس کی ایک خاموش گلی میں اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ اطمینان کی زندگی گزار رہا تھا، اسے اس کی کتاب ”تخلیقی ارتقاء“ پر ادب کا نوبل انعام دینے کا اعلان ہوا۔ مگر وہ سٹاک ہوم کے سفر کے قابل نہیں تھا۔ سو، اس نے اپنا صدارتی خطبہ لکھ کر بھیج دیا۔ 1928ءمیں اسے ”امریکن اکیڈیمی آف آرٹس اینڈ سائنسز “ کا اعزازی ممبر بنایا گیا۔
کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بیمارہوا، جس کے نتیجے میں اس کا آدھا جسم تقریباً مفلوج ہو گیا۔ مگر اس نے اپنا نیا کام ”اخلاقیات اور مذہب کے دو منابع“(The Two Sources of Morality & Religion) کے نام سے 1935ءمیں مکمل کر لیا۔ اس کتاب کو بھی عام اور فلسفیانہ حلقوں میں عزت و احترام سے لیا گیا۔ مگر سچ یہ ہے کہ اب برگساں کی شہرت کا ستارہ اپنی آب و تاب کھو رہا تھا۔
آخری ایام میں برگساں کیتھولک ازم کی طرف راغب ہو گیا اور 7فروری 1937ءکو اس نے اپنا وصیت نامہ لکھا تو اس نے لکھا ”میرے خیالات ہمیشہ کیتھولک مذہب کے قریب قریب رہے ہیں“۔
1940ءمیں جب فرانس پر ہٹلر کا قبضہ ہو گیا تو اسے نہایت عزت و احترام کے ساتھ پولیس اسٹیشن لایا گیا، تاکہ ضابطے کی کاروائی مکمل کی جا سکے۔ پولیس اسٹیشن پر اسے ایک فارم پر کرنے کے لیے دیا گیا تو اس نے لکھا:
نام: ہنری برگساں
تعلیمی قابلیت: فلاسفر
نوبل انعام یافتہ
یہودی
3جنوری 1941ءکو برگساں نے اس جہانِ جافی کو الوداع کہا۔ شاید اس کی آزاد روح نے ایک غلام ملک کی فضا میں سانس لینا گوارہ نہیں کیا ہو گا۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔