سیٹیاں بجاتا انجن ایک تھکی ہاری، دھول سے اٹی ریل گاڑی کو کھینچتا ہوا کراچی کی حدود میں داخل ہوا تو دن کافی چڑھ آیا تھا 

سیٹیاں بجاتا انجن ایک تھکی ہاری، دھول سے اٹی ریل گاڑی کو کھینچتا ہوا کراچی کی ...
سیٹیاں بجاتا انجن ایک تھکی ہاری، دھول سے اٹی ریل گاڑی کو کھینچتا ہوا کراچی کی حدود میں داخل ہوا تو دن کافی چڑھ آیا تھا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:6
کراچی آمد
3 دن کے مسلسل سفر اور 2 گاڑیاں بدلنے کے بعد جب خیبر میل کا بھاپ چھوڑتا ، گڑگڑاتا اور سیٹیاں بجاتا ہوا انجن ایک تھکی ہاری، دھول سے اٹی ہوئی ریل گاڑی کو کھینچتا ہوا کراچی کی حدود میں داخل ہوا تو دن کافی چڑھ آیا تھا ۔کراچی اس وقت اتنا پھیلا ہوا شہر نہیں تھا ۔ بس چندکھیتوں ، اور چھوٹی چھوٹی بنجر اور بے آب و گیاہ پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے اچانک ہی ریل گاڑی کی رفتار کم ہوئی ۔کچھ شورو غوغا اٹھا اور یکا یک کراچی چھاﺅنی کا سادہ اور بے رونق سا اسٹیشن بھی نظر آگیا۔ 
اس وقت کینٹ اسٹیشن پر دو ہی پلیٹ فارم ہوا کرتے تھے۔ایک جانے والی اور ایک آنے والی گاڑیوں کے لیے مختص تھا۔ کراچی شہر جانے والی گاڑی کو کچھ دیر یہاں رک کر مسافراتارنے ہوتے تھے اور پھر وہ اپنی آخری منزل یعنی کراچی سٹی اسٹیشن کی طرف روانہ ہو جاتی تھی ۔
میرے ابا جان وہاں موجود تھے ۔ وہ اپنے دراز قد اور فوجی وردی کی وجہ سے دور سے ہی پہچانے گئے ۔ انہوں نے قلی کو کہہ کر سامان اٹھوایا۔ چونکہ اب ہم لوگ مستقل طور پر کراچی ہی میں رہنے جا رہے تھے اس لیے میری ماں گاؤں والے گھر سے بہت سا ضروری اور اتنا ہی غیر ضروری سامان بھی ساتھ اٹھا لائی تھیں جن میں توے چمٹے سے لے کر پتیلیوں اور جھاڑو تک موجود تھے۔ زیادہ سامان کی وجہ سے ہمیں بیک وقت 4 قلی کروانے پڑے ۔ ان سب سے ایک روپیہ طے ہوا تھا کیونکہ اس وقت ایک قلی کا فی پھیرا معاوضہ محض 4آنے ہوتا تھا، اور یہ کرایہ ان کے شانے پر بندھے ہوئے پیتل کے بیج پر شناختی نمبر کے ساتھ ہی تحریر ہوتا تھا۔ ایسی سہولت اور سخت قوانین کے بدولت مسافر اور قلی بے جا بحث و مباحثے میں نہیں پڑتے تھے۔ قلی چپ چاپ اپنے حصے کا سامان اٹھاتے اور اسٹیشن سے باہر لے جا کر سائیکل رکشہ یا بگھی پر پہنچا دیتے اور اپنا معاوضہ لے کر سلام کرتے ہوئے واپس چلے جاتے۔ تب لوگ بہت قنا عت پسند اور خدا کی رضا پر راضی رہنے والے ہوتے تھے،اس لیے قلی بھی لڑائی جھگڑے کم ہی کیا کرتے تھے ۔ کوئی اپنی خوشی سے دو چار آنے اضافی دے دینا تو شکریہ ادا کر کے چلے جاتے ۔ 
ہمارا سارا سامان باہر لا کر ایک بگھی میں رکھ دیا گیا ۔ اس سے چھوٹی سواری پر وہ کسی طور آنا بھی نہیں تھا ۔اب گھوڑا ہمیں لے کر سرپٹ گھر کی طرف بھاگا جا رہا تھا جس کا پتہ میرے ابا جان نے کوچوان کو سمجھا دیا تھا ۔ اپنے بہن بھائیوں میں مَیں ہی سب سے بڑا تھا ، باقی دونوں ابھی چھوٹے تھے ۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ مجھے سامنے کوچوان کے ساتھ کی نشست پر بٹھا دیا گیا جہاں سے میں ہر طرف دیکھ سکتا تھا ۔
 کینٹ اسٹیشن کے سامنے سے ایک درمیانی اور عام سی سڑک شہر کی طرف جاتی تھی جس کے عین وسط میںٹرام کی 2 پٹریاںگزرتی تھیں ، جن پر کبھی کبھار کھڑکھڑاتی اور گھنٹیاں بجاتی ہوئی ٹرامیں آتی جاتی تھیں ۔ سائیکل رکشوں کی بہتات تھی جن پر ایک وقت میں دو لوگ بیٹھتے تھے، تاہم اسٹیشن کی طرف آنے والے مسافر مناسب جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنا سامان بھی گود میں لیے ہوتے تھے ۔ ان رکشوں کو مدقوق سے لوگ کھینچا کرتے تھے جن کے جسم تپتی دھوپ میں دن بھر کی مشقت سے سیاہ پڑ چکے ہوتے تھے۔مگر تن سے روح کا رشتہ قائم رکھنے کی خاطر وہ مسلسل تگ و دو میں رہتے تھے تاکہ گھر کا چولہا جلتا رہے ۔ ( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -