آدھا ملک کھونے کے بعد بھی اہل اقتدار طبقے پر کچھ اثر نہیں ہوا

مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:127
بطور ناول نگار:
صدیق سالک اردو ناول نگاری کی تاریخ میں ممتاز نام نہیں لیکن ان کا ناول ”پریشرککر“ اس تاریخ کا اہم ناول ہے۔ صدیق سالک کی ناول نگاری کا جائزہ لیں تو بہت حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز کے 16سال بعد ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ عموماً نثر نگار لکھنے کا آغاز افسانوی نثر سے کرتے ہیں لیکن سالک نے ناول اس وقت لکھا جب وہ اڑتالیس(48) برس کے ہو چکے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ناول کی صنف کسی خاص مقصد کو پانے کے لیے اپنائی ورنہ وہ اتنی تاخیر سے اس طرف مائل نہ ہوتے۔ گزشتہ صفحات میں سالک کی زندگی کے اس پہلو پر تفصیل سے بات ہو چکی ہے کہ سقوط ڈھاکہ نے ان کے دل و دماغ کو شدید متاثر کیا تھا۔وطن سے محبت سالک کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی،بھارتی قید نے اس میں کئی گنا اضافہ کیا تھا۔ اتنے بڑے حادثے کے بعد جب وہ واپس وطن آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ آدھا ملک کھونے کے بعد بھی اہل اقتدار طبقے پر کچھ اثر نہیں ہوا اسی بددلی میں وہ فوج بھی چھوڑنا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں ملازمتی مجبوریوں کے تحت ایسے اقدامات میں شریک ہونا پڑتا تھا جسے وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ اس پس منظر میں سالک نے ”پر یشر ککر“ تخلیق کیا جس میں انہوں نے عام پاکستانی کو معاشرے میں در پیش مسائل ‘ ناانصافی کی تصویر پیش کی ہے۔ صدیق سالک افسانوی نثر میں مہارت نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود یہ ناول قارئین میں مقبول ہوا کیونکہ اس کی بنیاد حقیقت پر رکھی گئی ہے۔ ناول کی کہانی ممتازمصور غلام رسول کی زندگی کی کہانی ہے جس کے پردے میں سالک نے اپنی زندگی کی کہانی بھی سنائی ہے۔ ”پریشر ککر“ کے تجزئیے میں ناول میں غلام رسول اور خود صدیق سالک کی حقیقی زندگی کی مماثلتوں کا ذکر ہو چکا ہے جس سے پتہ چلتا ہے سالک کا حقیقی زندگی پر ناول لکھنے کا تجربہ خاصا کا میاب رہا۔ جس میں بہت دخل اندازِ بیان کا بھی ہے سالک نے بہت سادہ اور فطری انداز میں اپنی بات قارئین تک پہنچائی ہے۔ عشق‘ محبت اور جنس کی عدم موجودگی کے باوجود یہ ناول مقبول ہوا جس کی اہم وجہ یہ نظر آتی ہے کہ یہ ایک عام پاکستانی کے دل کی آواز تھی۔ اس ناول کے ذریعے سالک نے ناول نگاری میں پاکستانی قومیت کے تصور کو بھی فروغ دیا ہے۔
ڈاکٹر سید عبد اللہ ”پریشر ککر“ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اسلوب بیان کے اعتبار سے یہ ناول کلاسیکی روایت کی ایک ترقی یافتہ صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے اس میں داستان گوئی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اس میں اگرچہ روایتی رومانویت نہیں لیکن یہ اپنی ایک نئی رومانویت تخلیق کرتا ہے‘ جبر اور ظلم کو سہنے کی ‘ برداشت کرنے کی رومانویت فطرت اور پریشر ککر ہمارے معاشرتی رویوں کی علامتیں بھی ہیں“
صدیق سالک کی ناول نگاری کے متعلق ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:
”صدیق سالک کے دو ناول ”پریشر ککر“ اور”ایمرجنسی“ میں پاکستانی معاشرے کی سماجی زندگی ‘ اخلاقیات کے زوال اور روح کی زبوں حالی کو واقعاتی صداقت اور کرداروں کا وجود معنویت سے پیش کیا گیا ہے۔ ان ناولوں میں پوری انسانیت ©’ایمرجنسی‘ کی زد میں آ کر پریشر ککر میں محبوس نظر آتی ہے پس منظر میںدیہات موجود ہے جو شہر کی باطل قوت سے دست بگر بیاں ہے۔ ان ناولوں کا اسلوب کلاسیکی ہے اور صدیق سالک کا مقصد معاشرتی ریاکاری کو عریاں کرنا ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔“
بیسویں صدی کے آخر تک اردو ناول تکنیک کے اعتبار سے بہت سے اوصاف سے مالا مال ہو چکا تھا۔ اس میں کرداروں کی تعمیر‘ پلاٹ کی بنت کے لحاظ سے تکنیکی تنوع آ چکا تھا جیسے شعور کی رو‘ خودکلامی‘ فلیش بیک کی تکنیک۔ صدیق سالک ان تجربات اور روایات سے استفادہ کرتے نظر نہیں آتے۔
سالک بنیادی طور پر غیر افسانوی نثر نگار ہیں اس لیے ان کے ہاں زیادہ حصہ سوانحی ادب کا ہے۔ ان کا افسانوی ادب جو ان کے ناولوں پر مشتمل ہے میں بھی سوانحی رنگ بہت گہرا ہے خصوصاً ”پریشر ککر“ مصور غلام رسول کے ساتھ خود سالک کی زندگی کا مرقع ہے۔دو اشخاص کی زندگی کی کہانی کے ساتھ اسے مکمل افسانوی نثر نہیں کہا جا سکتا۔اسی طرح ایمرجنسی پر امجد اسلام امجد کے ڈرامے ”وارث“ کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ جاگیرداری نظام پر لکھے گئے ناولوں کے مشترک عناصر بھی اس میں موجود ہیں۔ ان کی دیگر تحریروں کے تناظر میں جب ان کے ناولوں کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تخلیقی مزاج افسانوی نثر سے میل نہیں کھاتا۔ بطور ناول نگار ناقدین نے صدیق سالک کی ناول نگاری خصوصاً ”پریشرککر“ کو اہمیت دی ہے۔ڈاکٹر سید عبد اللہ ‘ ڈاکٹر انور سدید ‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ فتح محمد ملک اور ڈاکٹر شاہین مفتی جیسے نقادوں نے”پریشرککر“ کو ناول نگاری کی تاریخ میں ایک منفرد ‘غیر روایتی اور کامیاب ناول قرار دیا ہے۔( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )