یہ دہشت گردی…… اوروہ راحیل شریف

پاکستان میں امن کا گلستاں آج پھرجھلس رہا ہے۔چین اور سکون کے خِرمَن کو عفریت نگل رہا ہے۔ پشاور کی مسجد میں بہیمانہ دہشت گردی کا بھیانک واقعہ ہمیں بدقسمتی کی تاریک کھائی کی عمیق گہرائی میں لے جاتا نظر آرہا ہے۔ ایک دم سے ہم بے برکتی اور زحمت کی دلدل میں کیوں دھنسنے لگے۔ اوپر تلے ایسے واقعات آخر کار کس شامتِ اعمال کا نتیجہ ہیں۔پشاور میں پولیس لائن جو عام بستیوں سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ دہشت گرد مسجد میں دھماکہ کر دیتا ہے۔ اب تک ایک سو سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو چکے اور پونے دو سو زخموں سے چور ہیں۔ انہی دنوں کوہاٹ کے قریب ٹانڈہ ڈیم میں 16بچے ڈوب کر جاں بحق ہو گئے۔ ان کی عمریں 7 سے 14سال کے درمیان ہیں، یہ مدرسے کے بچے تھے، کشتی پر چالیس افراد سوار ہو گئے۔اوورلوڈنگ سے یہ حادثہ پیش آیا اس حادثے سے ایک روز قبل کوئٹہ سے کراچی آتی بس لسبیلہ کے قریب کھائی میں گر ی، بس میں ایران سے سمگل کیا جانے والا 2ہزار لیٹر پٹرول تھا جس میں آگ لگی اور 45میں سے 42افراد اس بس کے ساتھ آگ کا رزق بن گئے۔ اسلام آباد میں کم شدت کا زلزلہ بھی انہی دو تین روز کے دوران آیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹرآصف کرمانی نے سینٹ میں ان واقعات کو دُہراتے ہوئے کہا۔”اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے دہشت گردی پھر سر اٹھا رہی ہے۔قرونِ اولیٰ میں اللہ کی نافرمانی کرنے والے عبرت کا نشان بنا دیئے گئے۔ اللہ نے معاشرے سے برکت اٹھا لی اور بے سکونی معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ یہ عظیم قائد جن کے قدموں تلے ہم بیٹھے ہیں۔ آصف کرمانی نے یہ فقرہ قائد اعظم کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ادا کیا۔اس موقع پر اے این پی کے سینیٹر ہدایت اللہ بول پڑے۔" یہ نحوست اسی کی وجہ سے ہے"۔ جس پر آصف کرمانی آگ بگولہ ہو گئے اور ہدایت اللہ کی طرف الفاظ واپس لینے تک تپے رہے۔ قائداعظم کی شان میں گستاخی وہ بھی پاکستان اور ایوانِ بالا میں!
پشاور میں دہشت گردی کا بھیانک واقعہ ہوتا ہے۔ آرمی چیف کو ساتھ لے کر وزیر اعظم شہباز شریف زخمیوں کی عیادت کو گئے، وہاں سے بیان دیا دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ یہ پھوکا فائراوربڑھک ہے۔کورکمانڈر کانفرنس ہوئی۔ سپہ سالار جنرل سید حافظ عاصم منیر شاہ نے اس موقع پر کہا۔"پشاور حملہ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائیں گے۔بزدلانہ کارروائیاں قوم کا عزم متزلزل نہیں کرسکتیں۔مجرم کٹہرے میں یقینا آئیں گے۔ جنرل صاحب نے قوم کا عزم متزلزل نہ ہونے کی کی بات کی ہے وہ کس قوم کی بات کررہے ہیں؟ جو لوگ عمران خان کیساتھ ہیں یا جو اتحادی حکومت کیساتھ ہیں۔دہشت گردی کی موجودہ لہرکا ملبہ حکومتی پارٹیاں اورعمران خان ایکدوسرے کے سر ڈال رہے ہیں۔
آج جنرل راحیل شریف بے طرح یاد آئے۔ وہ آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردوں کا ”بی مکا“ رہے تھے۔ دہشت گرد ایک سیکورٹی اہلکارکو شہید کرتے تو بدلے میں 20دہشت گردوں کی لاشیں گرا دی جاتیں۔پشاور میں مسجد پر حملہ کی ذمہ داری مذہب سے تعلق رکھنے کی دعویدارتنظیم نے قبول کی۔جنرل راحیل کی سپہ سالاری کے دوران بھی یہی لوگ کارروائیاں کرتے تھے۔ جن کو جنرل راحیل شریف نے نکیل ڈالی۔ بہت سے نیست ونابود کردیئے گئے۔بقیہ زیرِ زمین چلے گئے یا پاکستان سے بھاگ لئے۔ جنرل باجوہ اپنے پیشرو کی کاپی ثابت ہوئے۔ انہوں نے ردالفساد آپریشن کے ذریعے بڑی کارروائیاں کیں مگر سیاست میں زیادہ ہی ملوث ہوگئے۔
مشرف دور میں قبائلی علاقوں میں ان لوگوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا گیا جن کے آباء کو قائدِ اعظم نے پاکستان کا بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا۔یہ لوگ پاکستان کی مغربی سرحدوں کے پاسبان اور نگہبان تھے۔اس بارڈر پر فوج تعینات کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ان لوگوں کو امریکہ کے ایماپر مجاہد کا خطاب دیکر سوویت یونین سے لڑایا گیا۔ان کی جدوجہد اور قربانیوں سے سوویت یونین ٹوٹ کر بکھرگیا۔ جو کچھ روس کررہا تھا وہی امریکہ نے کیا تو یہ مجاہد اس کے بھی خلاف ہو گئے۔ نائن الیون کے بعد مشرف نے زیادہ ہی جوش و جذبے سے امریکہ کا ساتھ دیا تو ان لوگوں میں سے کچھ نے پاکستان کیخلاف بھی ہتھیار اُٹھا لئے۔ اپنے حق کے لئے کوئی بہت کچھ کرسکتا ہے مگر اس بہت کچھ کی ایک حد ہے،اس حد سے تجاوز ریاست کے لئے قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔آپ مذاکرات کریں، احتجاج کریں مگر تشدد اور اُ س حد تک کہ پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں جی ایچ کیو،آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر،ایئر بیسز،نیول بیس پر حملے، جن میں پاکستان کے اورین طیارے بھی تباہ ہوئے۔یہ کس کا ایجنڈا ہو سکتا ہے؟ بھارت کا یقیناً جبکہ کچھ حلقے اسرائیل اور اس کے سرپرست کا نام لیتے ہیں۔ مذہب کے نام پر کچھ نوجوانوں کو گمراہ کرکے خود کُش بمبار تیار کرائے گئے۔ مولاناسرفرازنعیمی جیسے علما کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت پر خاموشی بھی ان کا احسان ٹھہرا ورنہ تو ان شہدا پر بھی دشمنِ دیں کی تہمت لگا دیتے۔
وہ لوگ اب بھی موجود ہیں جن کو قائد نے بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا۔وہ پاکستان کیخلاف ہتھیار بند کبھی نہیں ہو سکتے۔ریاست کیخلاف ہتھیار اُٹھانیوالے ایک تو مُٹھی بھر ہیں، دوسرے ان میں بدیشی بھی ہیں تیسرے کچھ مقامی ایجنٹ ہیں۔یہ ماضی میں پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے تھے جن کو جنرل راحیل شریف نے کاٹ کے رکھ دیا۔اُس دور حکومت نے مذاکرات کی بے پایاں کوشش کی، پاکستان کا ایک آئین ہے۔ کیا جن لوگوں سے مذاکرات کرنے کی حسرت تھی انہوں پاکستان کے آئین کو تسلیم اور سرنڈر کرنے کا عندیہ دیا تھا؟ نہیں بالکل نہیں۔وہ اُس وقت اوراب بھی ایسا کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ریاست اور اداروں کیخلاف زبان درازی کرنیوالوں سے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے مگر ان کے خلاف ہتھیار اُٹھانیوالوں والوں سے کیسی رعایت کیسی بات چیت کیسے معاملات طے کرنیکی آرزو!۔ قاضی فائز عیسیٰ نے آج ہی کہا ہے۔ ”دہشت گرد آج دو کل پانچ بندے ماریں گے،ان سے مذاکرات کیوں؟“۔ ریاست کے آج بھی اُن کے لئے دروازے کھلے ہیں جو تائب ہوکرآئین کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار پھینکیں اور قومی دھارے میں شامل ہوجائیں۔راہ راست پر آنے والے ایسے بہت سے ہوں گے۔وہ نشاندہی کر سکیں گے کہ ان کو گمراہ کرنے والے کون ہیں، دشمن کے لئے کام کرنے والے کون ہیں۔