ر ات کو دور سے اِکا دکا آتی جاتی سا ئیکلوں کی مدھم روشنیاں جگنوﺅں کی طرح جگمگاتی پھرتی نظر آتی تھیں

ر ات کو دور سے اِکا دکا آتی جاتی سا ئیکلوں کی مدھم روشنیاں جگنوﺅں کی طرح ...
ر ات کو دور سے اِکا دکا آتی جاتی سا ئیکلوں کی مدھم روشنیاں جگنوﺅں کی طرح جگمگاتی پھرتی نظر آتی تھیں

  

 مصنف: محمد سعید جاوید

قسط:7

موٹر کاریں اس وقت کراچی میں بہت کم ہوا کرتی تھیں۔ شاذو نادر ہی کوئی گاڑی اس سڑک پر سے گزرتی تھی ۔ ہاں کچھ پرانی طرز کی بسیں تھیں جو مسلسل دھواں چھوڑتی ہوئی رواں دواں رہتی تھیں۔ پھر بھی سڑک پر پیدل چلنے والوں کا ایک ہجوم نظر آ تا تھا۔ 

یہ وہ سڑک تھی جوکراچی کے مرکزی مقام ایمپریس مارکیٹ سے کینٹ اسٹیشن کی طرف آتی تھی اس لیے کافی مصروف رہتی تھی ۔ ویسے اس سڑک کو ٹراموں کی آمد و رفت کی وجہ سے پیار سے’’ٹرام پٹہ‘ ‘بھی کہتے تھے ۔ اس وقت اس پر کوئی تجارتی عمارتیں بھی نہیں ہوا کرتی تھیں، بس بڑے بڑے سرکاری اور ذاتی نوعیت کے بنگلے تھے ، جن کی اوپری منزل پر واقع ٹینکی تک پانی پہنچانے کے لیے نیچے ایک بڑا سا دستی پمپ لگا ہوتاتھا جس کے ہینڈل کو اس گھر کا کوئی ملازم یا چوکیدار مسلسل آگے پیچھے دھکیلتا رہتا تھا جس سے پانی ایک پائپ کے ذریعے اوپر بنی ہوئی ٹینکی میں پہنچ جاتا تھا ۔ صبح صبح اس سڑک پر چلتے ہوئے یہ منظر تقریباً ہر گھر میں ہی نظرآ ٓجاتا تھا۔ میں نے بھی یہ سب ہوتا ہوا دیکھا ۔ یہ بڑا ہی تکلیف دہ اور مشقت طلب کام تھا جس کو کئی کئی گھنٹے لگ جاتے تھے ۔ اس وقت پانی اوپر پہنچانے کے لیے برقی پمپ یا موٹریں نہیں ہوا کرتی تھیں ۔ 

اسی سڑک پر چلتے ہوئے آگے جا کر دائیں طرف کو مڑیں تو ہم ڈرگ روڈ پر آجاتے تھے ، جو اس وقت ایک عام اور تنہا سی مگر بہت ہی اہم سڑک ہوتی تھی ۔ یہ سڑک سیدھی کراچی ایئر پورٹ کو جاتی تھی اور پھر وہاں سے آگے قومی شاہراہ بن کربالائی پاکستان کی طرف چلی جاتی تھی ۔ بعدازاں اس سڑک کا نام تبدیل کرکے سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ فیصل کے نام پر رکھ دیا گیااور اسے شارع فیصل کہا جانے لگا ۔گو یہ قدرے مصروف سڑک تھی لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں ، کبھی کبھار کوئی دو چارمنٹ بعد ایک آدھ کار ، بس یا ٹرک وغیرہ گزر جاتا تھا ، تاہم سائیکل رکشا اور سائیکل سواروں کی ریل پیل لگی رہتی تھی ۔

چونکہ یہ چھاﺅنی کا علاقہ تھا اس لیے یہاں فوجیوں کے خاکستری رنگ کے موٹر سائیکل بھی اکثر بڑی تعداد میں بھاگتے دوڑتے نظر آجاتے تھے ۔ بعد ازاں جب میں کچھ اور بڑا ہوا تو میں نے قینچی اسٹائل میں سائیکل چلانا بھی اسی سڑک پرسیکھا تھا ۔رات کو ہمارے محلے کی خواتین بھی ٹولیاں بنا کراسی سڑک کے ساتھ بنے ہوئے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کیا کرتی تھیں۔کوئی درجن بھر اچھل کود کرتے، روتے پیٹتے اور بھاگتے دوڑتے بچے ساتھ ہوتے تھے۔ روشنی کا مناسب انتظام نہ تھا ۔ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر نصب کھمبوں پر زرد اور لاغر سی روشنیاں اندھیرا مٹانے کی ناکام کوشش کرتی رہتی تھیں۔ایسے ماحول میں سر شام ہی سڑک کی ویرانی دیکھ کر خوف آتا تھا ۔ واضح رہے یہ کراچی کی آج کل کی سب سے مصروف ڈرگ روڈ عرف شارع فیصل کا تذکرہ ہو رہا ہے ۔ ایسی ہی ہوا کرتی تھی یہ ان دنوں میں ! البتہ رات کو دور سے اِکا دکا آتی جاتی سا ئیکلوں کی مدھم روشنیاں جگنوﺅں کی طرح جگمگاتی پھرتی نظر آتی تھیں ۔ ( جاری ہے ) 

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -