آؤ باہر چلتے ہیں تھوڑی چہل قدمی کرتے ہیں، ساتھ میں دو دو باتیں بھی ہو جائیں گی

مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان
قسط:154
دوسرا آدمی گیا تو مقرر نے پھر یورگس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں سیاہ اور گہری تھیں اور چہرے پر نرمی اور دکھ کا تاثر تھا۔ ” میں معذرت چاہوں گا کامریڈ ۔ “ اس نے کہا، ” میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔ پچھلے مہینے سے میں مسلسل روزانہ خطاب کر رہا ہوں۔ میں اتنا کر سکتا ہوں کہ تمھیں کسی ایسے آدمی سے ملوا دوں جو تمھاری مدد کر سکے۔“ جانے والا ایک آدمی کے ساتھ لوٹا اور ساتھ والے آدمی کا یورگس سے تعارف کروایا ، ”کامریڈ آسٹرنسکی! “ کامریڈ آسٹرِنسکی چھوٹے قد کا تھا جو بہ مشکل یورگس کے کندھے تک پہنچتا تھا۔ سوکھا سڑا، جھرّیوں بھرا اور بہت بد صورت، وہ ہلکا سا لنگڑاتا بھی تھا۔اس نے ایک ٹیل کوٹ پہنا ہواتھا جو اتنا پرانا تھا کہ سلائیوں اور بٹن لگانے والی جگہوں سے ہرا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی نظر بھی کمزور تھی کیوں کہ اس نے ہرے رنگ کا چشمہ لگا رکھا تھا جس سے وہ اور بھی برا لگ رہا تھا۔ لیکن اس کے مصافحے میں گرم جوشی تھی، اور جب اس نے لیتھواینئین میں بات کی تو یورگس کو بہت اچھا لگا۔
” تم سوشل ازم کے متعلق جاننا چاہتے ہو ؟ “ اس نے کہا، ” ٹھیک ہے، آؤ باہر چلتے ہیں اور تھوڑی چہل قدمی کرتے ہیں، ساتھ میں دو دو باتیں بھی ہو جائیں گی۔ “
یورگس نے مقرر کو الوداع کہا اور باہر نکل آیا۔ آسٹرِنسکی نے پوچھا کہ یورگس کہاں رہتا ہے تاکہ اسی طرف چلا جائے۔ یورگس نے ایک بار پھر بتایا کہ اس کا کوئی گھر نہیں ہے۔ درخواست پر اس نے اپنی کہانی سنائی کہ وہ کیسے امریکا آیا، سٹاک یارڈز میں ا س کے ساتھ کیا ہوا، کس طرح اس کے خاندان کا شیرازہ بکھرا، کیسے وہ آوارہ بنا۔ سب کچھ سن کر اس آدمی نے اس کا بازودبایا، ” تم نے بہت تکلیف اٹھائی ہے کامریڈ! ہم تمھیں ایک جنگ جُو بنائیں گے!“
آسڑِنسکی نے اسے صورتِ حال سمجھاتے ہوئے کہا کہ وہ اسے اپنے گھر لے جاتا لیکن وہاں صرف2 کمرے ہیں، وہ اسے بستر بھی نہیں دے سکتا۔ وہ اسے اپنا بستر بھی دے دیتا لیکن اس کی بیوی بیمار تھی۔ لیکن جب اسے سمجھ آئی کہ یورگس کو کھلے آسمان کے نیچے سونا پڑے گا تو اس نے پیشکش کی کہ وہ اس کے باورچی خانے کے فرش پر سو جائے۔ یورگس اس پیش کش پر بہت خوش ہوا۔ ” کل کوئی اور بہتر انتظام کر لیں گے۔“ آسٹرِنسکی نے کہا، ” ہم کوشش کرتے ہیں کہ کوئی کامریڈ بھوکا نہ رہا۔“
آسٹرِنسکی کا گھر یہودی کچی بستی (Ghetto) میں تھا جہاں ایک عمارت کے تہہ خانے میں اس کی رہائش 2 کمروں میں تھی۔ وہ اندر داخل ہوئے تو ایک بچہ رو رہا تھا۔ آسٹرِنسکی نے خواب گاہ کا دروازہ بند کردیا۔ اس نے وضاحت کی اس کے3 بڑے بچے ہیں اور چوتھا ابھی آیا ہے۔ اس نے چولھے کے پاس دو کرسیاں کھینچیں اور گھر کی بے ترتیبی پر یورگس سے معذرت کی۔ آدھے باورچی خانے پر ایک بڑے بنچ نے قبضہ کیا ہوا تھا جس پر کپڑوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ آسٹرِنسکی نے بتایا کہ وہ پنٹوں کی تیاری کا کام کرتا ہے۔ وہ کپڑوں کے بنڈل گھر لے آتا ہے جہاں وہ اور اس کی بیوی مل کر کام کرتے ہیں۔ ان کی گزر بسر اسی سے ہوتی ہے لیکن نظر کی مسلسل کمزوری کی وجہ سے یہ کام مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ بینائی ختم ہونے پر وہ کیا کرے گا، اس کا ابھی کوئی اندازہ نہیں تھا۔ کوئی جمع شدہ پونجی بھی نہیں تھی۔ روز کے بارہ چودہ گھنٹوں کی محنت کے بعد بھی وہ بہ مشکل گزارہ کر پاتا تھا۔ پنٹوں کی تیاری کاکام اتنا مشکل نہیں تھا کوئی بھی اسے سیکھ سکتا تھا اس لیے اس کی اجرت مسلسل گر رہی تھی۔یہ اجرتوں کے مقابلے کا نظام تھا اور اگر یورگس سمجھنا چاہتا تھا کہ سوشل ازم کیا ہے تو آغاز کے لیے یہ بہترین نکتہ تھا۔ کارکنوں کاانحصار کام کی روزانہ موجودگی پر تھا اس لیے وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی لگاتے۔ کوئی آدمی اس کم ترین اجرت سے زیادہ نہیں لے سکتا تھا جس پر دوسرا کارکن کام کے لیے تیار تھا۔ چنانچہ یہ ہجوم ہمیشہ غربت کے ساتھ زندگی اور موت کی جدوجہد میں مصروف رہتا۔ وہ محنت کش جس کے پاس بیچنے کے لیے صرف اپنی محنت تھی، اس کے نقطۂ نگاہ سے اسے” مقابلہ“ کہا جاتا تھا۔ لیکن استحصالی بالائی طبقے کے لیے اس کا مفہوم کچھ اور تھا۔ وہ چند تھے اور مل کر غالب آجاتے تھے یوں ان کی طاقت ناقابلِ شکست ہوجاتی تھی۔ چنانچہ پوری دنیا میں2طبقات وجود میں آرہے تھے جن کے مابین ایک بڑھتا ہوا خلاء تھا۔۔۔ سرمایہ دار طبقہ، جس کے پاس بے پناہ دولت تھی، اور پرولتاری، جو نادیدہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ دونوں طبقات میں ایک اور ایک ہزار کا تناسب تھا۔ لیکن پرولتاری جاہل اور بے یارومددگار تھے اور انھیں تب تک ان استحصالیوں کے رحم و کرم پر رہنا تھا جب تک وہ منظم نہ ہوجاتے۔ جب تک ان میں طبقاتی شعور بیدار نہیں ہوتا۔یہ ایک سست اور تھکا دینے والا عمل تھا، لیکن اب یہ رکنے والا نہیں تھا۔ یہ کسی گلیشئیر کی حرکت جیسا تھا۔ جب ایک بار وہ کھسکنا شروع ہوجائے تو پھر اسے روکا نہیں جا سکتا۔ ہر سوشلسٹ نے اپنا فرض ادا کرتا اور آنے والے اچھے دنوں کے تصور کے ساتھ جیتا تھا۔۔۔ وہ وقت جب محنت کش انتخابات میں حصہ لے گا اور گورنمنٹ پر قابض ہوجائے گا اور پیداوار کے ذریعے ذاتی جائیداد بنانے کا خاتمہ ہوجائے گا۔کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ایک آدمی کتنا غریب تھا یا اس نے کتنی تکلیفیں سہیں لیکن اس مستقبل کے خیال سے اسے دکھ تکلیفیں محسوس ہی نہیں ہوتیں تھیں۔ اگر اس نے اس خواب کی تعبیر نہ پائی تو کوئی بات نہیں، اس کے بچے اسے حاصل کر لیں گے۔ اور ایک سوشلسٹ کے لیے اس طبقے کی فتح ہی اس کی فتح تھی۔اس کا حوصلہ بڑھ رہا تھا کیوں کہ، شکاگو ہی میں، تحریک دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔ شکاگو ملک کا صنعتی مرکز تھا اور پورے ملک میں کہیں اس سے زیادہ مضبوط یونئینز نہیں تھیں۔لیکن ان کی تنظیمیں کارکنوں کے لیے زیادہ کام نہیں کر پار ہی تھیں کیوں کہ مالکان منظم تھے۔ اسی بناءپر اکثر ہڑتالیں ناکام ہو جاتی تھیں۔ان تنظیموں کی ناکامی کی وجہ سے لوگ سوشلسٹوں کی جانب رجوع کر رہے تھے۔ ( جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔