برٹرینڈرسل۔۔۔وہ ساری زندگی دنیا کو بے پایاں درد کے ساتھ متجسس انداز میں دیکھتا رہا

تحریر: ظفر سپل
قسط:111
برٹی کی پیدائش کے تیسرے روز اس کی ماں نے اس کی پیدائش کی خبر دیتے ہوئے کسی کو لکھا:
”وہ اپنا سر اٹھا کر ازحد متجسس انداز میں گردوپیش کی طرف دیکھتا رہتا ہے“
وہ جس نے بہت بعد میں کہا کہ 3 سادہ مگر پرجوش جذبات میری زندگی پر حکمرانی کرتے رہے ہیں:
محبت کی تلاش
علم کی جستجو، اور
نسلِ انسانی کے لیے بے پایاں درد
وہ ساری زندگی دنیا کو بے پایاں درد کے ساتھ یونہی متجسس انداز میں دیکھتا رہا۔
اس نے کہا۔
”محبت اور علم مجھے ممکنہ حد تک آسمانوں کی بلندیوں تک لے جاتے تھے، لیکن ہر مرتبہ دکھ درد مجھے زمین پر واپس لے آتے۔۔۔“
اور، یہ کہ
” میں بدی کوکم کرنا چاہتا ہوں، لیکن نہیں کر سکتا۔ پس میں خود بھی گھاٹے میں رہتا ہوں“
برٹرینڈآرتھر ولیم رسل (Bertrand Arthur William Russell) 18مئی 1872ءکو ویلز کے علاقے مان ماؤتھ شائر (Monmouth Shire) کے ایک گاؤں ٹریلچ (Trellech) میں پیدا ہوئے۔ رسل خاندان انگلستان کا ایک قدیم اور معزز خاندان ہے، جو سولہویں صدی سے انگلستان کو نہایت باوقار سیاستدان فراہم کرتا رہا ہے۔ برٹرینڈ کا دادا ارل رسل (Earl Russell) 1840ءاور 1860ءکی دہائیوں میں 2 مرتبہ وزیر اعظم رہ چکا تھا۔ وہ لبرل خیالات کا مالک تھا۔ اس نے نظربند نپولین سے بھی ایک بار ملاقات کی تھی۔ مگر سیاسی استعداد کی یہ وراثت رسل کے والد لارڈ ایمبرلے (Lor Amberley) تک آتے آتے زوال پذیر ہو چکی تھی۔ ایمبرلے 1967ءسے 1868ءکے دوران ایک مختصر عرصے کےلئے پارلیمنٹ کا رکن رہا۔ وہ لاادری (Agnostic) تھا اور مشہور فلسفی جان اسٹورٹ مل (John Staurt Mill) کا دوست تھا۔ 21 برس کی عمر میں جب اس نے عیسائیت کو خیرباد کہا تو اس نے کرسمس کے موقع پر بھی گرجے جانے سے انکار کر دیا۔ پھر اس نے ایسے نظریات کا پرچار شروع کر دیا، جو اس وقت کے انگلستان کے معاشرے کےلئے ناقابلِ قبول تھے۔ مثلاً خاندانی منصوبہ بندی اور خواتین کا حقِ رائے دہی۔ اس نے یہاں تک کہا کہ ضبطِ تولید ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مذہبی علماءکی بجائے ماہرینِ طب کو حل کرنا چاہیے۔ اب اس کا وہی نتیجہ نکلنا چاہیے تھا، جو نکلا۔ اس کے خلاف بہتان طرازی کی مہم شروع کر دی گئی اور اس کے توہین آمیز کارٹون بنائے گئے۔ نتیجتاً ایمبرلے کو پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر قبول نہ کیا جا سکا۔ رسل نے درست کہا تھا ”میرا باپ ایسے نظریات اور مزاج سے محروم تھا، جو میدانِ سیاست میں کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں“ ایسا ہی حال لیڈی ایمبرلے کا بھی تھا۔ وہ بھی مساواتِ نسواں کی حامی تھی۔
رسل کے 2 بہن بھائی تھے۔ بھائی فرانک (Frank)، اس سے7 سال بڑا، اور بہن ریشل (Rachel)، جو اس سے 4 سال بڑی تھی۔ 1874ءمیں برٹرینڈ کی ماں کا خناق (Diphtheria) سے انتقال ہو گیا اور تھوڑے عرصے بعد 1876ءمیں باپ کا پھیپھڑوں کی بیماری سے۔ مرنے سے پہلے اس کے باپ نے ایک لمبا عرصہ ڈپریشن میں گزارا۔ اب اس کا دادا اسے اپنے یہاں لے آیا۔ رسل کے والدین نے وصیت کی تھی کہ اس کی تعلیم و تربیت لاادری تقاضوں کے مطابق کی جائے گی۔ مگر دادا نے قانونی طور پر اس وصیت کو تبدیل کرنے کے بعد اس کی پرورش مسیحی پیورٹن طریقے پر کی ۔برٹرینڈ کا بچپن علیشان محل ”پیمبروک لاج“ (Pembroke Lodge)میں بسر ہوا۔
ابھی اس کی عمر 6سال تھی کہ دادا کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا اور پرورش کی ساری ذمہ داری اس کی دادی فرانسس (Frances) کے کندھوں پر آن پڑی۔ وہ ایک روایت پرست اور بلند حوصلہ خاتون تھی، پیورٹن اخلاقیات کا ایک نمونہ۔ وکٹورین اشرافیہ سے تعلق کے باوجود وہ دولت و ثروت اور نام و نمود سے متنفر تھی۔ غیر دنیادار مگر جنگوں سے نفرت کرنے والی سامراج مخالف خاتون۔
برٹرینڈ کا بچپن نگرانی اور تنہائی میں بسر ہوا۔ دوستوں کے ساتھ کھیل کود کے مواقع نہایت کم تھے۔ دراصل پیمبروک لاج کے ماحول میں روایت پرستی اور رجعت پسندی کے پہرے تھے۔ روزانہ ٹھنڈے پانی سے غسل پر اصرار کیا جاتا اور کھانے کے لیے عسکری قسم کی خوراک دی جاتی تھی۔ یہ بھی ضروری تھا کہ روزانہ صبح ملازموں کے آگ جلانے سے پہلے ننھا برٹی نصف گھنٹے کے لیے پیانو بجانے کی مشق کرے۔ فطری مسرتوں سے محروم اس ماحول میں اس نے کئی بار خودکشی کے بارے میں سوچا ۔ پس کوئی تعجب کا مقام نہیں ہے جووہ زندگی بھر پابندیوں اور روایت کے خلاف برسرپیکار رہا۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔