کبھی منطق اور کبھی جذبات کا سہارا 

کبھی منطق اور کبھی جذبات کا سہارا 
کبھی منطق اور کبھی جذبات کا سہارا 

  

 مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی

قسط:128

بطور سفر نامہ نگار:

صدیق سالک باقاعدہ سفر نامہ نگار نہیں۔ ان کی کتاب ”تادم تحریر“ کا ایک حصہ سفر ناموں پر مشتمل ہے لیکن یہ سفر نامے کی صنف کے تمام تقاضے پورے نہیں کرتے اس لیے سالک نے خود انھیں ”سفر نامچے“ قرار دیا ہے۔سالک نے عام روایت کی طرح سفر کی غرض و غایت اور ہم سفروں کی تفصیلات بیان نہیں کیں لیکن ان کے صاحبزادے سرمد سالک نے بتایا کہ یہ سب سفر انہوں نے صدر جنرل ضیاءالحق کے ہمراہ سرکاری طور پر کیے‘ اس پس منظر کوپیش منظر نہ لانے کی وجہ سالک نے بیان نہیں کی لیکن ان کی شخصیت کے پیش نظر یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ وہ صدر کے پریس سیکرٹری کو ادیب سالک سے علیٰحدہ رکھنا چاہتے تھے۔

سید ضمیر جعفری ‘ سالک کے سفر ناموں کے متعلق لکھتے ہیں:

”اس کے سفر نامے بلکہ (سفر نامچے) دراصل ”نظرے خوش گزرے‘ ‘کی نوع کے سماجی اورثقافتی خاکے ہیں۔وہ شہر سے زیادہ شہر کے فلسفے سے سرو کار رکھتا ہے۔“ 

بطور سفر نامہ نگار سالک کی تحریر کا بنیادی محور وطن پرستی نظر آتا ہے یہ عنصر ان کی ہر نوع کی تحریروں میں بکثرت ملتا ہے لیکن سفر نامے میں یہ بہت ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح اپنے وطن کے ”جام سفال“ کو مغرب کے ”جام جم“ پر ترجیح دے دیں۔ اس کوشش میں وہ کبھی منطق اور کبھی جذبات کا سہارا لیتے ہیں۔ مغرب کی اخلاقی زبوں حالی کاان کی مادی ترقی سے موازنہ کرتے ہیں اس طرح میزان میں انھیں کم نمبر دیتے ہیں۔ یہ انداز یورپی ملکوں کے لیے مخصوص ہے اس نوع کا موازنہ وہ عوامی جمہوریہ چین سے نہیں کرتے بلکہ اپنے ملک کے لیے بھی ایسی ترقی کے خواہاں ہیں۔

صدیق سالک کے سفر ناموں میں فحاشی اور لذتیت کا تاثر ابھرتا ہے جو کوئی قابل تحسین بات نہیں مغرب کی اخلاقی بے راہ روی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہیں کہیں عامیانہ انداز اختیار کر تے ہیں جو ان کی شخصیت سے میل نہیں کھاتا ایسا انداز شاید وہ اس صنف کے تقاضوں اور مزاح کا سہارا لے کر کرتے ہیں۔ لیکن ان کی باقی تحریروں سے موازنہ کریں تو یہ انداز ہر جگہ نہیں اس لیے ان کی تحریروں کے ایک مختصر حصے کو بنیاد بنا کر ہم انھیں فحش نگاری کے زمرے میں نہیں رکھ سکتے یہ ان کے فن کا ایک جزوی حصہ ہے کلی نہیں۔

سالک کے سفر ناموں میں تاریخی اور جغرافیائی معلومات کے بجائے تاثراتی رنگ نمایاں ہے۔

صدیق سالک کے سفر ناموں کی اسی ثانوی حیثیت کی بنا پر ڈاکٹر انور سدید نے اپنی کتاب ”اردو ادب میں سفر نامہ“ میں صدیق سالک کو ”مزاح نگاروں کے سفر نامے“ کے عنوان کے تحت لکھا ہے۔

صدیق سالک کے سفرناموں کی اختصار پسندی اور حیثیت کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:

”اس سیمابی کیفیت اور تعجیل سفری کے باوجود صدیق سالک نے ہر ایسی بات پر کان دھرا ہے جس میں مزاح کا شائبہ موجود ہے۔ہر اس واقعے کو دیکھا ہے جس پر وہ مسکرا سکتے ہیں ہر اس کردار سے شناسائی پیدا کی ہے جو انوکھا‘ حیرت انگیز اور خندہ آور تھا۔“ ( جاری ہے ) 

نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -