چھوٹا بھائی  خالی سڑک پرہوا کی طرح سکوٹرچلا رہا تھا کہ پہیہ کھل گیا،   گاؤں کی مٹیاریں اس حادثے پر بہت افسردہ ہوئیں اور بہانے سے اسے دیکھنے آتی رہیں 

چھوٹا بھائی  خالی سڑک پرہوا کی طرح سکوٹرچلا رہا تھا کہ پہیہ کھل گیا،   گاؤں ...
چھوٹا بھائی  خالی سڑک پرہوا کی طرح سکوٹرچلا رہا تھا کہ پہیہ کھل گیا،   گاؤں کی مٹیاریں اس حادثے پر بہت افسردہ ہوئیں اور بہانے سے اسے دیکھنے آتی رہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:175
اپنے مقدر کو رو پیٹ کر اس نے حالات سے سمجھوتا کر لیا تھا۔ اور وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ ویسے بھی ہم متوسط طبقے کے بچوں کو بس اتنی ہی تعلیم دلائی جاتی تھی جس سے انھیں کہیں کوئی مناسب روزگار مل سکے اور وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر کھوپے چڑھائے ساری زندگی بس ایک ہی محور میں گھومتے چلے جائیں۔
شفیق بہت جلدی وہاں سیٹ ہو گیا تھا اور اپنی مرنجان مرنج طبیعت کی بدولت دوستوں کا ایک وسیع حلقہ بنا لیا تھا۔ وہ واہ کینٹ سے ویگن پر پہلے ٹیکسلا آتا اور پھر وہاں سے ٹانگے یا رکشے پر ایچ ایم سی پہنچتا اور پھر شام کو اسی طرح واپس گھر آ جاتا تھا۔ ایک دن موسم کچھ سہانا تھا اور اُسے اُس روز تنخواہ بھی ملی تھی۔ اس نے روائتی سواریوں کو استعمال کرنے کی بجائے کھیتوں کے بیچوں بیچ بل کھاتی پگڈنڈی سے پیدل ہی واہ کینٹ جانے کا فیصلہ کیا اور اس مختصر راہ کو اپنانے کی کوشش میں وہ راستے میں ہی ایک اُچکے کے ہتھے چڑھ گیا، جس نے چاقو کی نوک پر اس کی ہر شے حتیٰ کہ تلاشی بھی لے لی اورپیسوں اور گھڑی سے محروم کر کے اسے خالی ہاتھ واہ کینٹ روانہ کر دیا۔
جنگ کے ختم ہونے کے فوراً بعد بینک میں وسیع پیمانے پر تبادلوں کا منصوبہ بنا، جس میں میری باری بھی آ گئی اور دسمبر کے آخری ہفتے میں مجھے مری برانچ جانے کے احکامات مل گئے۔یہ بھی بتایا گیا کہ وہاں پہلے سے ہی بینک کی رہائش گاہ دستیاب ہے اس لیے میں چاہوں تو اپنا سامان بھی ہمراہ لے جا سکتا ہوں۔ مجھے چند روز گھر سمیٹنے میں لگے۔ کچھ ضروری کام بھی نبٹانے تھے۔
شفیق کو بھی اب کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈنا تھا وہ کچھ عرصہ تک تو وہیں ایک چچا زاد بھائی کے ساتھ رہا پھر ابا جان نے راولپنڈی میں اپنی سابقہ یونٹ کے افسروں کو کہہ سن کر اسے یونٹ کی فوجی بیرک میں ایک کمرہ دلوا دیا۔ جہاں سے وہ روزانہ ایچ ایم سی ٹیکسلا اپنی ملازمت پر جاتا اور شام کو واپس آ جاتا۔سفر طویل تھا،مگر مجبوری تھی۔
 ایسا کرتے ہیں کہ مری کی طرف روانگی کو کچھ عرصے کے لیے پس پشت ڈال کر ہم ایک بار پھر چھوٹے بھائی خالد کو پکڑتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ ان دنوں کیا کرتا رہا تھا۔
ایک بار پھر خالد
مری ایک چھوٹا سا قصبہ تھا اور بینک بھی گھر کے قریب ہی تھا۔ وہاں آمدورفت کے لیے کسی سواری کی ضرورت نہیں تھی،اس لیے میں نے اپنا لاڈلا سکوٹر گاؤں بھیج دیا تھا جہاں وہ چھوٹے بھائی خالد کے ہتھے چڑھ گیا اور اس نے سیکھنے اور ٹھیک کرنے کے نام پر اس کا حشر نشر کر دیا۔ جوانی دبے قدموں اس تک بھی آن پہنچی تھی اور اس کو کسی پل چین سے نہیں رہنے دے رہی تھی، لہٰذا وہ گاؤں کی گلیوں میں سکوٹر دوڑائے پھرتا اور اپنے ہم نشینوں اور ہمجولیوں کو یکساں طور پر متاثر کیے رکھتا تھا۔ کم بخت تھا بھی بلا کا خوبصورت، گوری رنگت اور نیلی آنکھوں اور   دھاری دار پاجامے کی بدولت وہ گاؤں کی مٹیاروں پر کیا ظلم نہ ڈھاتا ہو گا بس سوچ ہے ہماری۔
پھر سنا کہ ایک روز وہ اپنا دھلا ہوا کرتا اور دھاری دار پاجامہ پہنے گھر سے نکلا اور پکی سڑک سے ہوتا ہوا فورٹ عباس کی طرف روانہ ہوا۔ اور واپسی پر جب وہ خالی سڑک پرہوا کی طرح اڑا آرہا تھا تو اچانک سکوٹر کا پہیہ کھل گیا، وہ پھسلا اور سوار کو ساتھ لے کر دور تک گھسٹتا ہی چلا گیا۔شام ڈھلے جب وہ گھر واپس لوٹاتو اس کا جسم داغ داغ اجالا تھا۔ کرتے پاجامے کے نام پر وہاں چند لٹکتی ہوئی دھجیاں سی رہ گئی تھیں جو اسے کسی ایسے آدم خور افریقی قبیلے کا وہ فرد ظاہر کر رہی تھیں جو نیزہ اٹھا کر دیگ میں پکتے ہوئے کسی انگریز پادری کے ارد گرد جینگا لالا ہرررر کرتا محو رقص ہوتا ہے۔ رقص تو اس نے نہ کیا، ہاں سر پرہاتھ رکھ کر رویا بہت۔ اگلے چند دن وہ اپنی اور سکوٹر کی مرمت میں مصروف رہا۔اس دوران گاؤں کی ہم عمر مٹیاریں واضح طور پر افسردہ رہیں اور بہانے بہانے سے اسکا حال پوچھنے بلکہ دیکھنے آتی رہی تھیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -