اپیکس کمیٹی کا اجلاس ، سندھ کے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق وفاق کے کردار پر تحفظات، 9مقدمات عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ
کراچی(اے این این) وزیراعلی سندھ کی زیرصدارت اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں صوبائی لیگل کمیٹی نے مزید9 مقدمات ملٹری کورٹس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا جبکہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق وفاقی حکومت کے کردار پر سندھ حکومت نے تحفظات کا اظہار کیا اور خرابیوں کا ذمہ دار وفاق کو قرار دیا ہے ،وفاقی حکومت کو خط لکھ کر غیر قانونی اسلحہ بنانے کی فیکٹریوں اور دکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ۔پیر کو وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت وزیر اعلی ہاؤس کراچی میں ہونے والے اپیکس کمیٹی کے 18ویں اجلاس میں امن و امان کی صورتحال اور کراچی آپریشن پر غور ہوا۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بھی اجلاس میں شرکت کی ، انہوں نے پندرہ روز کی جبری رخصت کے بعد دوبارہ چارج سنبھالا ہے۔اجلاس میں امن و امان کی صورتحال اور کراچی آپریشن پر غور کیا گیا ، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا اور ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل محمد سعید نے پہلی بار ایپکس کمیٹی اجلاس میں شرکت کی۔اجلاس میں سیکریٹری داخلہ شکیل منگ نیچونے بریفنگ دی اور اجلاس کو بتایا کہ سندھ سے گرفتار 16 دہشت گردوں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔فوجی عدالتوں کی جانب سے 16 کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے اور مزید 19 مقدمات زیر سماعت ہیں۔سندھ کی لیگل کمیٹی نے 9 مزید مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجنے کی منظوری دے دی ہے۔سندھ حکومت کی سفارش پر 62 کالعدم تنظیموں کے نام فرسٹ شیڈول میں ڈالے گئے۔سندھ میں 92646 افغان شہریوں کی رجسٹریشن ہوئی۔سندھ نے 94 مدارس کی فہرست وزارت داخلہ کو بھیجی ہے، ان کو بھی فرسٹ شیڈول میں ڈالا جائے گا۔581 مختلف افراد کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا۔اجلاس میں صوبے میں مستقل قیام امن کیلئے حکمت عملی طے کی گئی۔سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو، صوبائی مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو، مرتضی وہاب،چیف سیکریٹری رضوان میمن و دیگراجلاس میں شریک ہوئے۔ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو اسٹریٹ کرائمز کے خلاف کریک ڈان کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر وزیراعلی سندھ نے کراچی کے عوام کو ہر جرم کی شکایت پولیس اور رینجرز کی ہیلپ لائن پر درج کروانے کی بھی ہدایت کی۔اجلاس کے دوران وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کروانے میں مکمل تعاون نہیں کر رہی، ٹی وی پر ابھی تک دہشت گردوں کی خبریں چلتی ہیں، انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی روک تھام بھی نہیں ہوسکی اور کالعدم تنظیموں کے لوگ ابھی تک کھلے عام جلسے کر رہے ہیں، لیکن وفاقی حکومت اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کر رہی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت کو خط لکھا جائے کہ غیر قانونی اسلحہ بنانے کی فیکٹریوں اور دکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے، کیونکہ سندھ میں اب تک جتنا بھی اسلحہ پکڑا گیا، اس کا 40 فیصد مقامی طور پر تیار کیا گیا تھا۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ 'آئی جی سندھ بڑے سکون کے ساتھ اجلاس میں بیٹھے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ مجھ پر سندھ حکومت کا کوئی دبا نہیں'۔انھوں نے کہا کہ کراچی میں جرائم میں واضح کمی آئی ہے اور تمام لوگوں نے اس سلسلے میں بے پناہ محنت کی اورقربانیاں دیں۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں افواہیں پھیلائی گئیں، لیکن آج کے اجلاس کے بعد اداروں کے درمیان لڑائی کا تاثر ختم ہوا۔انھوں نے بتایا کہ اجلاس کے دوران ان تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ وفاق کراچی آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا اور جہاں کہیں بھی کمزوریاں نظر آرہی ہیں، وہ سب وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ مدارس کی نگرانی کا کام وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، پیمرا کی نگرانی بھی حکومت کی ذمہ داری اور پیمرا کے حوالے سے طے ہوا تھا کہ دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر نہیں پیش کیا جائے گا، لیکن اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ رینجرز اور پولیس نے کراچی سے بہت اسلحہ پکڑا لیکن شہر میں باہر سے آنے والے غیر قانونی اسلحے کو کنٹرول کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے، جو وہ پوری نہیں کر رہا۔اس موقع پر انھوں نے وفاقی وزیر داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار کہاں گئے؟۔مولا بخش چانڈیو نے بتایا کہ سندھ حکومت نے اسٹریٹ کرائم کے مسئلے پر خاص توجہ دی ہے اور وزیراعلی سندھ نے پولیس اور دیگر ایجنسیوں کو ٹارگٹ دیا ہے کہ فوری طور پر ان پر کنٹرول کیا جائے۔
اپیکس کمیٹی