ٹرمپ کی نئی چال
جب کچھ سمجھ نہ آرہا ہو تو ڈانس بہترین طریقہ علاج ہے ۔ڈانس کرنے کیلئے سٹیپس کی ضرورت ہوتی ہے ،یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ٹانگیں مارنا شروع کر دیں یا پھر ٹانگوں کو خاموش رکھ کر پیٹ ہلانا شروع کر دیا ، اس کا مکمل کورس ہے ۔ زمانہ قدیم سے غاروں میں رہنے والا انسان کی مصوری سے ڈانس کا پتہ ملتا ہے ، تب سے انسان ڈانس کر رہا ہے ۔ ویسے حکمران طبقہ بھی عوام پر بھاری ٹیکس لگا کر ڈانس کراتا ہے اور عوام بے چارے ڈانس کر تے کرتے کبھی کس کو ووٹ دیتے ہیں اور کبھی کسی کو،چلیں جی ہم عوام کی مرضی !
جدید قومیں بھی اپنے سے کئی گنا بڑی قوموں کو ڈانس کراتی ہیں اور یہ ڈانس سائنس اور معیشت کے زور پر کرایا جاتا ہے۔اس تناظر میں آج بات کرتے ہیں امریکی پالیسی اور اس پر عالمی رد عمل !جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ چھ دسمبر۲۰۱۷ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرارد ے دیا۔اس اعلان پر اسلامی دنیا کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے اور بڑے ممالک میں شدید تشویش پائی جاتی ہے جبکہ اس کے ساتھ امریکی ایمبیسی نے یروشلم میں کام شروع کر دیا ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کی حمایت سے مغربی ممالک بھی انکاری نظر آتے ہیں۔جسکا مظاہرہ اقوام متحدہ میں پیش کی گئی قرارداد میں واضح طور پر دیکھا گیا۔ اس قرارداد کا بنیادی نقطہ تھا کہ یروشلم کو اسرائیل اور فلسطین دونوں کا دارالحکومت قرارد یا جائے ۔
اس قرارداد کے حق میں128 ملکوں نے ووٹ دیا ،جن پاکستان، ترکی،انڈیا،عرب ممالک اور22 مغربی ممالک( برطانیہ،جرمنی اور فرانسس سرفہرست ہیں) جبکہ قرارداد کی مخالفت آٹھ ملکوں نے کی جن میں امریکہ،اسرائیل اور چھ چھوٹے ممالک شامل ہیں ،درجن سے اوپر ملکوں نے خاموشی اختیار کی۔
یاد رہے عرب اور اسرائیل کے درمیان۱۹۶۷کی جنگ میںیروشلم اسرائیل اور اردن کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا ۔ اسرائیل کے حصے میںیروشلم کا مشرقی حصہ آیا تھا، مشرقی حصے میں مسلمان یہودی اورعیسائی آبادی موجود ہے ۔ جبکہ فلسطین کے عوام یروشلم کو اپنی مستقبل فلسطین ریاست کا دارلخلافہ تصور کرتے ہیں ۔ یہ تو ہو گیا امریکہ کا موجودہ فیصلہ،یو این او کی قرارد اور یروشلم کا تاریخی پس منظر۔
لائیو ٹی وی نشریات دیکھنے کے لیے ویب سائٹ پر ”لائیو ٹی وی “ کے آپشن یا یہاں کلک کریں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکہ اسرائیل کی حمایت کرنے میں کامیاب رہتا ہے یا کہ اس کا یہ اقدام الٹا گلے پڑ سکتا ہے ۔ اکتیس دسمبر۲۰۱۷ کی خبر ہے کہ ایران میں سیاسی عدم استحکام کی فضا پیدا ہونے سے ایرانی حکومت کو انسٹا گرام اور دوسری سوشل میڈیا کو عارضی طور پر بند کر نا پڑا ۔ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا کو حکومت کے خلاف مظاہروں میں تیزی لانے کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا، مظاہروں کی وجہ معاشی ابتری بتائی جا رہی ہیں۔ ان مظاہروں میں دس افراد کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ایرانی پاس داران انقلاب کے فوجی دستوں کی طرف سے بیان میں حکومتی مخالف مظاہرین سے سختی سے نپٹنے کے لئے کا عندہ دیا گیا ہے۔ اب مظاہرین پر ہے کہ وہ فوجی دستے پاسدارن انقلا ب کے بیان پر کان دھرتے ہیں یا پھرمظاہروں میں تیزی لانے کے لئے اقدامات ۔ ایرانی حکومت مظاہرین کے پیچھے خفیہ ہاتھ کی طرف اشارہ کر کے سعودی حکومت پر الزامات لگا رہی ہے ۔ جبکہ یمن کی طرف سے سعودی عرب کے شہر جدہ سے ۲۲ میل دوری پر ڈاغے گئے میزائل کا الزامات سعودی حکام ایران پر ڈالتے ہیں۔ یمن کے باغیوں کا نشانہ خالد انٹرنیشنل ائرپورٹ تھا ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی حکام کی حمایت کر کے خود کو سعودی عرب کا دوست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، کچھ تجزیہ کار دوستوں کے خیال میں ڈونلڈٹرمپ اتنا بیوقوف نہیں ہے جتنا وہ لگتا ہے ۔
ترکی صدر اردگان نے بھی کچھ روز قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل سے دوستی سعودی حکمرانوں کو نہیں بچا پائے گی ۔ امریکہ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے سے سعودی حکمران اندرونی و بیرونی دباو کا شکار نظر آتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کاکچھ تھنک ٹینک طبقہ اس خطے میں ایک لا حاصل جنگ چھڑ کرمفادات حاصل کرنا چاہ رہا ہے جس میں لاکھوں بے گناہ جان کی بازی کھو سکتے ہیں ۔ ٹرمپ کے تھنک ٹینک کی اس چال کو ناکام بنانے کیلئے سعودی عرب اور ایران کو ایک پیج پر آنا ہو گا اورا سے حوالے سے ترکی اور پاکستان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔