فعال انشورنس انڈسٹری مستحکم معیشت اور خو شحال معاشر ے کی بنیادہے

فعال انشورنس انڈسٹری مستحکم معیشت اور خو شحال معاشر ے کی بنیادہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انٹر ویو: شہزاد چودھری
انشورنس سیکٹر کی ترقی کے بغیر فلاحی ریا ست کا خواب پورا نہیں ہو سکتا، کا روبار کے لئے موافق ماحول ضروری ہے
ممتاز انشورنس ایکسپرٹ اوریو نائیٹڈ انٹرنیشنل گروپ کے چیئرمین میاں شاہدکیْ ْ ْ روزنامہ اوصافْ ْ ْ ْ ْ ْ سے گفتگو
پاکستان میں بہت سی ایسی قابل، محنتی، جفاکش دیانتدار اور کمیٹیڈ شخصیات موجود ہیں جنہوں نے نا مساعد حالات انتہائی کم وسائل اور بے حد مصاب و مشکلات کے باوجود ترقی کی وہ منازل طے کیں جو دوسروں کے لئے نہ صرف روشن بلکہ قابل تقلید مثال بن گئیں جن میں سے ایک یونائیٹڈ انٹرنیشنل گروپ کے چیئرمین میاں ایم اے شاہد ہیں جنہوں نے عصر حاضر میں پاکستان کے انشورنس سیکٹر کو نئی جہت اور جدت سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ مختصر وقت میں اپنی کمپنی کو ایک بڑے کاروباری گروپ میں بدل دیا ان کا حوصلہ اور عزم و استقلال آج بھی اسی طرح تازہ دم اور جوان ہے جیسا کہ عملی زندگی کے اولین ایام میں تھا اور اسی عزم و استقلال کو وہ اپنا سرمایہ حیات بھی قرار دیتے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور لاء گریجویٹ ہیں اور انشورنس سیکٹرز کے سی ای اوز میں ان جیسے تجربے قارئین وژن اور عمل کا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا روزنامہ اوصاف نے گزشتہ دنوں ان سے ایک طویل خصوصی گفگتو کی جو تجربے اخلاص اور عزم کی آئینہ دار رہی اس گفتگو کا خلاصہ قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے جو یقیناََ قارئینً ان کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگا انٹریونائیٹڈ انٹرنیشنل گروپ کے چیئرمین میاں شاہد نے اپنی عملی زندگی کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد 1988ء میں میںے آبپارہ میں ایک مقامی انشورنس کمپنی سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔اس وقت انشورنس کے متعلق کئی طرح کے ابہام موجود تھے اور انشورنس سے وابستہ بعض کالی بھیڑوں نے اور انشورنس کے فوائدکے متعلق کم عملی کی وجہ سے اس کاروبار کو اس قدر بدنام کر رکھا تھا کہ ضرورت کے باوجود لوگ پالیسی لینے سے ہچکچاتے تھے شروع میں بہت دوڑ دھوپ کرنی پڑی۔ بار بار ارادہ ٹوٹتا تھا خیال آتا تھا کہ شعبہ بدل لینا چاہیے لیکن چیلنجز ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اگردوسرے شعبے میں بھی یہی صورتحال ہوئی تو کیا ہوگا۔ یہی سوال ذہن میں آتاجو ارادے کو پختہ تر کر دیتا۔ واقفیت بڑھتی گئی۔ کاروباری حلقوں میں اعتماد پیدا ہوا اس اعتماد اورمثبت ساکھ نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا آج بھی بطور چیئر مین یونائیٹڈ انٹرنیشنل گروپ یہ سب میر ے ساتھ ہیں ۔ کا روبار میں قابل مثال کامیابی کا ذکر کر تے ہو ئے انہوں نے کہا کہ ا نشورنس انڈسٹری کے اندر رسک لینا پڑتا ہے۔ کاروبار نام ہی رسک کا ہے رسک کا فیصلہ آپ خود کریں ملازمین اورکمپنی رفقاء کو اس کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ اگر کامیابی ہو گئی تو کریڈٹ سب کو دیں اگر نقصان ہو تو مسکرا کر ذمہ داری قبول کر لیں اور نئی منصوبہ بندی کریں۔ زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں کسی ایک نقصان پر غم زدہ ہو کر بیٹھا نہیں جا سکتا۔ رونے دھونے سے کاروبار کبھی نہیں پھیلتا۔ یہ ایک طرح کی کان کنی ہے۔ آپ نے مسلسل مشقت کرتے رہنا ہے۔ کاروباری رقابتیں بھی آڑے آتی ہیں۔ حاسد بھی میدان میں کود پڑتے ہیں اور بعض اوقات کھلی دشمنی پر اتر آتے ہیں لیکن کسی سے ٹکرانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کے نو حصے کاروبار میں رکھے ہیں اگر ایک آدھ حصہ نہیں ملے گا تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ باقی آٹھ حصوں کے لئے تگ و دو کرنی چاہئے، کوئی نہ کوئی حصہ ضرور مل جائے گا۔ بس کامیابی کے لئے تسلسل کے ساتھ محنت اور بروقت مثبت فیصلے بہت ضروری اور اہمیت کے حامل ہیں۔ دولت کو بینکوں میں بیکار جمع رکھنا انسانی ترقی کی ضد ہے۔ اس سے سرمائے کی گردش رک جاتی ہے۔ سرکولیشن رکنے کا مطلب ایسے ہی ہے جیسے انسانی جسم میں خون کی گردش رک جائے۔ میرا یقین ہے کہ جو لوگ اپنے سرمایہ کو گردش میں لا کر کاروباری سرگرمیوں کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں وہ معاشرے کے محسنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اللہ کی ذات ان پر خاص مہربانیاں فرماتی ہے اور پردہ غیب سے مدد ملتی ہے۔ اللہ کی ذات رب العالمین ہے اور اس نے اپنی ربویت کا عمل اپنے انسانوں کے ذریعے ہی مکمل کروانا ہے میاں شاہد کے نزدیک کاروبار ایک عبادت ہے۔ اس کے ذریعے دوسرے انسانوں کی پرورش ہوتی ہے وہ دولت مندوں کو کاروبار کی طرف راغب کرتے رہتے ہیں انہیں موجودہ دور میں کاروباری مشکلات اور پاکستان کے حالات کا مکمل ادراک ہے لیکن وہ ہر حال میں بزنس کو ترجیح دیتے ہیں ان کے نزدیک انشورنس سیکٹر میں اصل سرمایہ کاری اعتماد ہے۔ بلکہ اعتماد ہی شاید واحد سرمایہ ہے۔ اگر حکومتی سرپرستی ہو اور انشورنس کے اصول و ضوابط صارف دوست ہوں اور ان پر پابندی کروائی جائے تو پھر یہ سیکٹر عوامی خوشحالی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ میاں شاہد نے کہا ہے کہ فعال انشورنس انڈسٹری مستحکم معیشت اور خوشحال معاشرے کی بنیاد ہے جو عوام اور کاروبار کو تحفظ فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔ بیمہ کی صنعت کا معاشرے اور معیشت کے تمام شعبوں سے براہ راست تعلق ہے جس کی ترقی کے بغیر کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی نا ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ برسوں کی جدوجہد کی وجہ سے یونائیٹڈ انٹرنیشنل گروپ ایک بڑا کاروباری ادارہ بن چکا ہے جس میں یونائیٹڈ انشورنس کمپنی (یو آئی سی) اپنا مائیکرو فنانس بینک لمیٹڈ، ایس پی آئی انشورنس کمپنی لمیٹڈ، یونائیٹڈ ٹریک سسٹم ، تواسل انشورنس سروسز ابوظہبی اور دیگر کمپنیاں شامل ہیں جو روز گار کی فراہمی کے علاوہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہمارا گروپ اندرون و بیرون ملک وسعت پا رہا ہے جس میں انتظامی سمیت تمام اہلکاروں کی کوششوں کا دخل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ انشورنس اور مائیکرو فنانس شعبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ معیشت کے استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت عرصہ سے سست روی کا شکار ہے سرمایہ دار عدم اعتماد کا شکار ہیں معاشی پہیئے کو تیز کرنے کے لئے نجی شعبہ کو مزید فعال موثر اور پیداوار کے عمل کا زیادہ سے زیادہ حصہ بناتے ہوئے سرمایہ کاری کے ماحول کو مزید بہتر


اور پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے میاں شاہد نے کہا کہ غربت کے خاتمہ کے لئے غریبوں کو با اختیار بنانا ضروری ہے جس کے لئے مائیکرو فنانس سیکٹر بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے جو بینکاری کی خدمات سے محروم اکثریت کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنا مائیکرو فنانس بینک لمیٹڈنہ صرف عوام کی بھرپور مدد کر رہا ہے بلکہ نئی مصنوعات اور خدمات روشناس کروانے میں بھی کسی سے کم نہیں۔ ہمارا ڈیفالٹ کا تناسب ایک فیصد سے کم ہے جس سے ہمارے عزم و حوصلے میں اضافہ ہوا ہے اور ہم نے زرعی شعبہ میں بھرپور سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی (پا کرا) نے حال ہی میں یونائیٹڈ انشورنس کمپنی کی آئی ایف ایس ریٹنگ AA- بر قرار رکھی ہے جو ادارے میں مضبوط مالی حیثیت اور استعداد کی غماز ہے۔ پاکرا کے مطابق کمپنی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے اور اس پر کاروباری اتار چڑھاؤ یا معاشی حالات کے منفی اثرات پڑنے کا امکان کم ہے اور یہ ادارہ اپنے تمام کاروباری معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کمپنی رسک برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کی ترقی کے امکانات روشن ہیں۔ ادارے کی گورنس بہتر اور کلیمز سمیت متعدد معاملات شفاف اور انتظامیہ کی حکمت عملی مناسب ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ انشورنس انڈسٹری کا امیج بہتر کرنے اور تمام صنعت کو عوام کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لئے راغب کرتے رہیں گے۔ کاروباری اخلاقیات کے حوالے سے میاں شاہد کا کہنا ہے کہ ’’آپ کے ملازم آپ کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ وہ آپ کی کمائی کے حصہ دار ہوتے ہیں انہیں کماتے ہوئے دیکھ کر دکھ نہیں خوشی ہونی چاہئے۔ انہیں ڈرانا نہیں بلکہ ان کے اندر آگے بڑھنے کا شوق پیدا کرنا چاہئے۔ ان کے کیریئر میں کمپنی کے قوانین اور سروسز رولز کو رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔ میاں شاہد نے کہا کہ ابتداء سے ہی ان کی اولین کوشش رہی ہے کہ صارف دوست اور وقت کی ضرورت کے مطابق انشورنس پالیسیاں تربیب دی جائیں تاکہ کسٹمر کی ضروریات کو اس کی تسلی کے مطابق پورا کیا جا سکے یہی وجہ ہے کہ ہماری کمپنیوں نے ہمیشہ ایک قدم آگے بڑھ کر انشورنس سیکٹر کو جدت سے روشناس کرایا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہماری معیشت اور لوگوں کی غالب اکثریت کے روزگار کا انحصار زاعت اور اس سے وابستہ اداروں اور لائیو سٹاک سے منسلک ہے زرعی شعبے کی اس اہمیت اور اس کی ضرورت کے پیش نظر بہت عرصہ قبل یونائیٹڈ انشورنس نے سب سے پہلے زراعت اور لائیو سٹاک کے لئے انشورنس کے تحفظ کا نہ صرف تصور پیش کیا بلکہ اس کے لئے جامع اور موثر پالیسیاں متعارف کروائیں جس کے زراعت اور لائیو سٹاک پر نہایت مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس طرح یونائیٹڈ انشورنس ہی وہ پہلی کمپنی ہے جس نے سب سے پہلے جنرل انشورنس کمپنیوں میں ونڈو تکافل آپریٹر کا آغاز کیا اور حال ہی میں یونائیٹڈ انشورنس نے نیشنل بنک آف پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت پاکستان بھر کے کسانوں کو بیمہ کا بہترین تحفظ فراہم کیا جائے گا اسی طرح کا ایک معاہدہ دبئی اسلامک بنک کے ساتھ کیا گیا ہے جس کے تحت ٹریول اینڈ کارگو سروسز کے لئے انشورنس کی خصوصی پالیسیاں ترتیب دی گئی ہیں انہوں نے کہا کہ ہم ہر اس عمل کے حامی ہیں جو ملک و قوم کو ترقی کی جانب گامزن کر سکے۔ ایک سوال کے جواب میں موجود ہ حکومت کی ملک کو ریاست مد نیہ کی طرز پر استوار کر نے کی حکمتِ عملی کو مثبت قراا دیا اور کہا کہ ریاست مدنیہ ایک فلاحی ریاست تھی جہاں پر آدمی کے لئے روز گار اور مستحق افراد کے لئے نان نفقہ کا انتظام ریاست کے ذمے تھا موجودہ دور میں فلاحی ریاست کا تصور انشورنس سیکٹر کی ترقی اور وسعت کے بغیر ممکن نہیں معاشرے ،انسانوں اور کاروبار کو پنپنے کے لئے تحفظ درکا ر ہو تا ہے جہاں امن اور ہر طرح کا تحفظ ہو گا وہیں نمو کے مواقع پیدا ہو ں گے روزگا ر پیدا ہو گا اور اللہ کی خلق شاد ہو گی انہوں نے کہا ہے کہ حکومت معیشت کی بحا لی اور کا روبا ر کی وسعت کے لئے آ سانیاں پیدا کر ے اور حکومتی اداروں کو پا بند کر ے کہ وہ کا روباری اداروں کی ترقی کے لئے ساز گا ر ماحول پیدا کرے نہ کے ان کے کئے رکا وٹ کا باعث بنیں آخر میں میاں شاہد نے اپنی مختلف کمپنیوں میں شامل اپنے رفقاء کار کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ الحمد اللہ ہمارے تمام اداروں کو پر خلوص دیانتدار اور پیشہ وارانہ امور میں اعلیٰ مہارت کے حامل افراد کی خدمات حاصل ہیں جن میں خاص کر جناب راحت صادق، خواص خان نیازی تجمل اقبال، مقبول احمد، قیصرامام، راجہ نعیم طارق، سید راحت علی شاہ، گلستان ملک، نعیم مرتضیٰ سمیت دیگر بہترین ساتھیوں اور ورکرز کی خدمات حاصل ہیں جو اپنے اپنے شعبے میں بہترین خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

مزید :

ایڈیشن 1 -