چکن سے متعلق پنجاب فوڈ اتھارٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد تمام شکوک و شبہات دم توڑ گئے: ڈاکٹر محمد ارشد

چکن سے متعلق پنجاب فوڈ اتھارٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے بعد تمام شکوک و شبہات دم ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مرغی کا گوشت انسانی جسم اور دماغ کی نشونما کیلئے انتہائی مفید قرار
فوڈ اتھارٹی کی تحقیقاتی ٹیم نے مختلف شہروں سے مرغی کے نمونے لئے اور ان کا عالمی معیار کی لیبارٹری سے تجزیہ کروایا، جس کے بعد مرغی کے گوشت کی تیاری کے تمام مراحل محفوظ قرار دیئے گئے: لاہور چیمبر آف کامرس کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے ایگرو بیس انڈسٹری کے کنوینر کا ’’پاکستان‘‘ سے خصوصی انٹرویو

ڈاکٹر محمد ارشد کا آبائی علاقہ فیصل آباد ہے ،1976 ء میں ایگری کلچر یونیورسٹی سے ڈی وی ایم کیا اور ابتداء میں ایک نجی کمپنی میں ملازمت اختیار کی، تین برس بعد 1979ء میں آپ اسی یونیورسٹی میں تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہو گئے اور 9 برس تک ٹیچنگ کے مقدس فرائض سر انجام دیئے،1988 ء میں اپنے چند پیشہ وردوستوں سے مل کرعملی طور پر کاروبار کا آغاز کر دیا اور ’’ہائی ٹیک‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ابتداء پولٹری فارمنگ سے کی اور چھوٹے پیمانے پر پولٹری فیڈ بنانے کا یونٹ لگایا ، بعد ازاں محدود پیمانے پر پولٹری بریڈنگ کمپنی کی شروعات کی جو قدرت کی خاص مہربانی سے آج پاکستان کی چند بڑی بریڈنگ کمپنیوں میں سے ایک بن چکی ہے۔ ڈاکٹر محمد ارشد اور ان کی ٹیم کی شب و روز محنت کی بدولت آج ’’ہائی ٹیک گروپ ‘‘ کا نام کوالٹی اور معیار کی ضمانت سمجھا جاتا ہے اور یہ گروپ پاکستان میں صنعت مرغبانی کا سرخیل ہے۔ ہائی ٹیک گروپ میں شامل ادارے ہائی ٹیک پولٹری بریڈرز پرائیویٹ لمیٹڈ، ہائی ٹیک فیڈز ، ہائی ٹیک فارمز، ہائی ٹیک ایڈیبل آئل ملز اور ہائی ٹیک فارما سوٹیکلز کے نام سے پروگریسو طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران انڈسٹری پر بہت سے بحرانی ادوار گزرے لیکن اپنے عزم و ہمت سے ان کا مقابلہ کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جہد مسلسل اور شب و روز محنت نے انہیں ایک قابل قدر اور باعث تکریم لیڈر میں بدل دیاہے اور 30 سال قبل لگایا گیا پودا ان کی کاوشوں کی بدولت آج’’ہائی ٹیک گروپ آف کمپنیز‘‘ کے نام سے ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ ’’پاکستان‘سے خصوصی انٹرویو کے دوران انہوں نے پولٹری انڈسٹری کو درپیش مسائل، فیڈ کی تیاری اور اس کے معیار ، حکومتی پالیسیوں اور صنعت کے فروغ کیلئے ضروری اقدامات کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی جس کا احوال نذر قارئین کیا جاتا ہے۔

مرغی کے گوشت کے بارے میں حال ہی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی تحقیقاتی رپورٹ سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ارشد نے کہا کہ پی ایف اے نے اپنی رپورٹ میں مرغی کے گوشت کو انسانی جسم اور دماغ کی نشونما کیلئے محفوظ اور مفید قراردیا ہے جس کے بعدچکن سے متعلق پنجاب تمام شکوک و شبہات دم توڑ گئے ہیں ،کچھ عرصہ قبل میڈیا پر مرغی کا گوشت مضر صحت ہونے کے حوالے سے خبر نشر ہوئی جس میں امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا، جس کے بعد ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی کیپٹن (ر) محمد عثمان نے اس خبر کا نوٹس لیتے ہوئے فوڈ اتھارٹی کے متعلقہ ونگز کو مکمل تحقیق کر کے رپورٹ مرتب کرنے کا حکم دیا۔ جس کے بعدفوڈ اتھارٹی کی تحقیقاتی ٹیم نے مختلف شہروں سے مرغی کے نمونے لئے اور ان کا عالمی معیار کی لیبارٹری سے تجزیہ کروایااور اس کی روشنی میں مرغی کے گوشت کی تیاری کے تمام مراحل محفوظ قرار دیئے گئے۔ تحقیقاتی ٹیم نے امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی اس رپورٹ کا بھی جائزہ لیا جس کی بنیاد پر گمراہ کن خبر بنائی گئی اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ خبر میں رپورٹ کو توڑ مروڑ کر حقائق کے برعکس پیش کیا گیا، ایف ڈی اے کی رپورٹ دراصل 2016 ء میں مرغی کی ایک دوا ’’تھری نائٹرو‘‘ کے ٹیسٹ کے بعد مرتب کی گئی ، رپورٹ بنانے والے سائنسدانوں نے بلیک ہیڈ نامی بیماری کے علاج کیلئے مرغی کے ایک گروپ کو تھری نائٹرو والی خوراک جبکہ دوسرے گروپ کو سادہ خوراک دی، نتائج سے پتہ چلا کہ تھری نائٹرو خوراک کھانے والی مرغی کے جگر میں آرسینک کی زیادہ مقدار پائی گئی ہے، اس رپورٹ کی بنیاد پر تھری نائٹرودوائی کا استعمال ترک کر دیا گیا،جبکہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہ دوا پاکستان میں کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر محمد ارشد کا کہنا تھا کہ خبر بنانے والوں نے تھری نائٹرو پر ہونیوالی تحقیق کو غلط انداز میں پیش کر کے اسے پاکستان میں فروخت ہونیوالی مرغی پر لاگو کیا اور سنسنی خیز خبر پھیلا دی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، تاہم اب پنجاب فوڈ اتھارٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مرغی کا گوشت انسانی جسم اور دماغ کیلئے مفید ہے۔انہوں نے کہا کہ پولٹری انڈسٹری پاکستان کی سب سے بڑی ایگرو بیس صنعت ہے اور عوام کیلئے حیوانی پروٹین حاصل کرنے کا سستا ترین ذریعہ بھی ہے ،خاص طور پر ایک ایسی معیشت میں جو بہت زیادہ مثالی نہیں ہے، پولٹری سیکٹر کی کامیابیوں کو بے مثال قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ پاکستان کی معیشت کا واحد سیکٹر ہے جو ہر طرح کے حالات میں آگے ہی آگے بڑھتا رہا ، اس دوران جنگیں لگیں، برڈ فلو جیسی بیماریاں آئیں جو اپنے جلو میں افواہوں کا ایک طوفان بھی لے آئیں، پھر شادیوں کے کھانوں پر پابندی کا آرڈی نینس آ گیا اس آرڈی نینس کے ذریعے پہلے تو شادی کھانوں کو سرے سے ہی ممنوع قرار دیدیا گیا ، پھر ون ڈش تک محدود کر دیا گیا۔ اسی طرح ملک میں مشکل اقتصادی حالات آتے رہے لیکن پولٹری کی صنعت ان تمام مشکل حالات کے باوجود کامیابیوں کی منازل طے کرتی رہی، پولٹری کی صنعت سے وابستہ افراد فارمرز اور پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کو اس بات پر خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہیے ۔
انہوں نے کہا کہ پولٹری سیکٹرکو عام طور پر فیڈ کی تیاری کے حوالے سے مختلف قسم کے متضاد سوالات کا سامنا رہتا ہے اور فیڈ کی تیاری کے مختلف مراحل سے ناواقفیت کے باوجود چند لوگوں کی جانب سے اس کے بارے میں بات کی جاتی ہے ، اس لئے میں اپنے قارئین کو فیڈ کی تیاری کے حوالے مختلف مراحل کے بارے میں بتایا چاتا ہوں۔پولٹری فیڈ میں استعمال ہونے والے اجزاء میں 60فیصد سے زیادہ زرعی اجناس شامل ہوتی ہیں جن کے معیار کو فیکٹری میں داخل ہونے سے پہلے لیبارٹری کی مدد سے جانچا جاتا ہے۔ اگر کسی ٹرک میں غیر معیاری زرعی اجناس(مکئی ، گندم وغیرہ) آئیں تو ان کو گیٹ پر ہی مسترد کرکے واپس کردیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں آئل سیڈ سے تیل نکالنے کے بعد جو پھوک بچ جاتا ہے وہ پروٹین کا ذریعہ ہے جوکہ فیڈ میں 30فیصد سے 35فیصد بطور پروٹین استعمال ہوتا ہے۔ باقی جو اجزا فیڈ میں استعمال ہوتے ہیں ان میں Molases شوگر ملوں کی بائی پراڈکٹ ہے۔اس کے علاوہ تقریباً بیس قسم کے وٹامن اور نمکیات جو کہ نہ صرف مرغی بلکہ انسانی صحت کیلئے بھی بے حد مفید ہوتے ہیں، یہ سارے اجزاء دنیا بھر کے بہترین ذرائع سے برآمد کر کے جدید تحقیقی رہنمائی میں مجوزہ شرح سے مستقل طور پر خوراک میں شامل کئے جاتے ہیں۔ان تمام اجزا سے تیار کردہ فیڈ انتہائی صحتمندانہ طریقے سے تیار کی جاتی ہے۔مرغی کا گوشت جو ہم اور آپ کھاتے ہیں یہ جن کی ایجاد ہے وہی اس کی فیڈ کے فارمولے بھی دنیا کو بتاتے ہیں کیونکہ پہلے ’’ہائبرڈ‘‘مرغی تیار کی گئی پھر اس کی جسمانی ضرورت کے مطابق فیڈ تیار کی گئی۔ اسی مرغی اور اسی فارمولا سے وہ بھی فیڈ تیار کرتے ہیں اور وہی مرغی یورپ اور امریکہ والے 41کلوگرام فی کس سالانہ استعمال کرتے ہیں جبکہ دنیا میں سالانہ اوسطاً فی کس 13کلوگرام مرغی کا گوشت استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں بمشکل 7کلوگرام فی کس سالانہ مرغی کا گوشت استعمال ہوتا ہے۔ سالانہ 41کلوگرام مرغی کا گوشت کھانے والوں کی اوسط عمر 80سال سے زیادہ اور صحت قابل رشک ہے جبکہ ہماری اوسط عمر اور صحت دونوں ہی پریشان کن حد تک نیچے ہیں۔
ڈاکٹر محمد ارشد کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں درجنوں فیڈ ملز بہترین ٹیکنالوجی سے لیس ہمہ تن صنعت مرغبانی کی خدمت جانفشانی سے کر رہی ہیں۔ پاکستان میں مکئی کی فصل جو کہ تقریباً 45-50 لاکھ ٹن سالانہ ہوتی ہے کا اسی فیصد حصہ فیڈ ملز ہی خریدتی ہیں جس کی وجہ سے مکئی کی کاشت نہ صرف دن بدن بڑھ رہی ہے بلکہ کاشتکار کو نہایت مناسب قیمت بھی مل رہی ہے، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں فیڈ انڈسٹری عوام کو سستی مرغی فراہم کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہے وہیں مکئی کے کاشتکار کی بھی خدمت کر رہی ہے۔
ایک ابہام جو کہ عام طور پر پایا جاتا ہے کہ برائلرمرغی صرف 35 دنوں میں 2 کلو کی کیسے ہو جاتی ہے ؟ یہ کرشمہ در اصل دو جدید سائنسی علوم یعنی نیوٹریشن اور جنیٹک سائنس کا امتراج ہے ،جس کی وجہ سے ایسی خصوصیات کی حامل نسل تیار کی جاتی ہے جس میں جلدی وزن کرنے کی صلاحیت ہو، غذا سے متعلقہ سائنس یہ بتاتی ہے کہ اس نسل کو روزانہ کی بنیاد پر کون کون سے غذائی اجزاء کی کتنی مقدار میں ضرورت ہے۔میں اس بات کو مزید سادہ یوں بیان کرتا ہوں کہ اگر یہی خوراک آپ دیسی مرغی کو کھلائیں تو وہ برائلر مرغی کی طرح وزن نہیں بڑھائے گی اور دوسری طرف برائلر مرغی کو آپ وہی کچھ کھلائیں جو دیسی مرغی چل پھر کر کھاتی ہے تو وہ بھی اتنی تیزی سے وزن نہیں کرے گی۔ حقائق یہ ہیں کہ فارمی مرغی کو جومتوازی فیڈ دی جاتی ہے اس کو Micro-levelپربیلنس کیا جاتا ہے۔ ایسی Balancedخوراک تو اس ملک کے امیر ترین لوگوں کو بھی میسر ہے۔ امیروں کی خوراک کا بیلنس نہیں ہوپاتا کیونکہ وہ بھی پروٹین اپنی جسمانی ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں اور کبھی انرجی اپنی جسمانی ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اور غریب آدمی کا حال اُلٹ ہے کہ نہ تو اس کو جسمانی ضرورت کے مطابق پروٹین میسر ہے اور نہ ہی انرجی۔
مرغی کا گوشت اور انڈہ پروٹین کے حصول کے سستے ذرائع ہیں جن کو سازش کے تحت غلط افواہیں پھیلا کر غریب آدمی سے دور رکھا جارہا ہے۔ میری اس ملک کے عوام سے یہ گذارش ہے کہ وہ ان سازشوں میں نہ آئیں اور مرغی کا گوشت اور انڈے بے دریغ استعمال کریں۔ اسی میں اُن کی صحت کا راز چھپا ہے۔ اس مرغی کو جس قدر صاف پانی مہیا کیا جاتا ہے وہ شاید اس ملک کے پانچ فیصد لوگوں کو بھی میسر نہیں۔ فارموں پر R-Oپلانٹ نصب ہیں، کم از کم فلٹر تو ضرور نصب ہیں۔ اگر وہ بھی نہیں تو پانی کو مرغیوں تک پہنچنے سے پہلے دوائیوں کے ذریعے ٹریٹ کیا جاتاہے۔ ذرا آپ سوچیں کہ ہمارے ملک میں کتنے فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر ہے۔ یقیناًان کی تعداد بہت کم ہے۔ آپ دیکھیں کہ مرغیوں کو رہنے کے لیے صاف ستھرے اور موسمی اثرات سے محفوظ پولٹری ہاؤسز مہیا کیے جاتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ کتنے فیصد لوگوں کو چھت میسر ہے، موسمی اثرات سے بچاؤ تو بہت دور کی بات ہے۔ علاوہ ازیں مرغی فارموں کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر فارم پر جنریٹروں کی سہولت مہیا کی جاتی ہے تاکہ صحتمند مرغی ہی آپ تک پہنچ سکے۔ صرف مرغی کا صحتمند گوشت ہی آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت کا ضامن ہوسکتا ہے کیونکہ صحتمند جسم میں ہی صحتمند دماغ ہوتا ہے۔ مرغی کے لیے جو ادویات استعمال ہوتی ہیں ان کا معیار لیبارٹری میں چیک کیا جاتا ہے۔ اُن کی سٹوریج کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ اُن کی صحت کے بارے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہ ہوسکے۔ کاش جتنا مرغیوں کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے ا سکے دس فیصد کے مساوی بھی انسانوں کا خیال رکھا جائے تو ہماری قوم دنیا میں مقام حاصل کرسکتی ہے۔


تصاویر کیپشن

(1 )۔ڈاکٹر محمد ارشد وزیر اعظم کے مشیر برائے سرمایہ کاری، صنعت و تجارت اور کامرس عبدالرزاق داؤد کو دورہ لاہور چیمبر کے دوران خوش آمدید کہتے ہوئے۔
(2)۔فلیٹیز ہوٹل میں فاؤنڈرز گروپ کی ایک تقریب کے دوران۔
(3 )۔ایل سی سی آئی کے سابق سینئر نائب صدر امجد علی جاوا کے ہمراہ ایک میٹنگ میں شریک ہیں۔
(4 )۔لاہور چیمبر آف کامرس میں سٹینڈنگ کمیٹی برائے ایگرو بیس انڈسٹری کے ایک اجلاس کے دوران۔

مزید :

ایڈیشن 1 -