2020ء سے توقعات 2
وزیراعظم عمران خان نے نئے سال کے پہلے دن ہی اسلام آباد میں ایر یونیورسٹی کے ایک نئے کیمپس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ وہ ملک کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔2020ء میں ملک اوپر اٹھے گا۔ ٹیک آف کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی بار میدان میں جیتنے کے لئے اترتا تھا لیکن مار پڑتی تھی۔ماضی کے حکمران کہتے تھے کہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنائیں گے، لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ہمارا ماڈل مدینے کی ریاست ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب روپے کی قدر مستحکم ہے، سٹاک مارکیٹ بلند سطح پر ہے، بیرونی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ اب ہم صحیح راستے پر ہیں۔ ہماری معیشت ٹھیک ہو گئی ہے۔وزیراعظم نے حالات کا جو نقشہ کھینچا ہے،وہ اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن2019ء میں اہل ِ وطن کو جن مصائب سے گذرنا پڑا،ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار انتہائی سست رہی۔ روپے کی قدر میں بے پناہ کمی ہوئی۔سود کی شرح بلند سے بلند ترہو گئی۔ کساد بازاری اور بے روزگاری نے گھیراؤ کئے رکھا۔لاکھوں افراد کا روزگار ختم ہو گیا۔ بے شمار پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ افراد بیرون ملک جانے پر مجبور ہو گئے کہ ملکی صنعتی شعبے میں ان کی مانگ نہیں تھی۔ بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ نئے سال کا آغاز بھی پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی خبر کے ساتھ ہوا، اور لوگوں پر بجلی گرا گیا۔ماہرین نئے سال سے کوئی بلند توقعات قائم نہیں کر پا رہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کم ہوا ہے،لیکن یہ برآمدات کے بڑھنے سے کہیں زیادہ درآمدات کے کم کرنے سے ہوا ہے۔درآمدات میں کمی کے اپنے اثرات ہیں۔ صنعتی شعبے کی سست روی نے بہتر مستقبل کو دھندلا دیا ہے۔اس سب کے باوجود ہر شخص کی دُعا ہے کہ نیا سال گذرنے والے سال سے بہتر ہو۔2019ء اور2020ء میں محض انیس، بیس کا فرق نہ ہو بلکہ وزیراعظم کی زبان مبارک ثابت ہو، اور ہم اُڑان بھر سکیں۔ بلندی کی طرف اُڑتے نظر آئیں۔
جنابِ وزیراعظم ایشین ٹائیگر بننے پر اکتفا نہیں کرنا چاہتے،مدینے کی ریاست ان کا ماڈل ہے، تو یہ خوشی کی بات ہے۔ ہر کلمہ گو اسی ریاست کو اپنا آئیڈیل سمجھتا، اور اپنی ریاست کو اسی سانچے میں ڈھلتے ہوئے دیکھ کر باغ باغ ہوتا ہے، لیکن یہ ریاست محض الفاظ کے ذریعے قائم نہیں کی جا سکتی۔اس کے لیے معاشی،انتظامی اور عدالتی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کے اداروں کو بھی منظم اور مستحکم کرنا ہو گا۔ہمارا تعلیمی نظام اِس وقت کئی خانوں میں منقسم ہے۔ مدرسوں کی اپنی دُنیا ہے، سرکاری سکولوں کی اپنی، اور مہنگے نجی اداروں کی اپنی۔ پاکستان شاید دُنیا کا واحد ملک ہے جہاں تعلیمی اداروں سے کئی ”قومیں“ برآمد ہو رہی ہیں۔ان کی سوچ اور انداز میں اتنا فاصلہ ہے کہ پاٹے نہیں پٹ پاتا۔ مدینے کی ریاست کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ ہم ہنگامی بنیادوں پراپنے تعلیمی نظام میں تبدلیاں لے کر آئیں، اور الگ الگ دنیائیں بسانے میں مصروف اداروں کو ایک قومی دھارے میں شریک کریں۔ یہ کام ایک دن، یا ایک ماہ میں تو نہیں ہو سکتا لیکن اسے بہرحال کرنا ہو گا، اور جلد سے جلد کرنا ہو گا۔2020ء کا سال اگر ماضی کی کوتاہیوں اور فروگذاشتوں کو کم کرنا نظر آئے گا، تو کاروانِ شوق تیز تر ہوتا جائے گا۔اس سال سے ہمیں یہ توقع بھی باندھنی چاہئے کہ ہماری سیاست میں منفیّت کم سے کم ہو سکے۔ اس وقت بازارِ سیاست میں بدتمیزی اور بدتہذیبی کا طوفان برپا ہے۔ اداروں کے مقام واحترام کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں نہ افراد کے۔ بعض عناصر آزادیئ اظہار کے نام پر ہر الّم غلّم اگلنے کو کارنامہ قرار دیتے ہیں، تو بعض طاقتور اپنی مرضی کے الفاظ کو نگلنے اور اُگلنے کو ذمہ دارانہ اظہارِ رائے قرار دیتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک یا سوشل، جو کچھ کانوں اور آنکھوں میں انڈیلا جا رہا ہے،اس کے بعد بصیرت یا بصارت نام کی کسی شے کا باقی رہنا ناممکنات کا کھیل بن جاتا ہے۔
ادارے اپنے اپنے کام کی طرف توجہ دینے کے بجائے، دوسرے اداروں کی جگہ سنبھالنے اور اپنی دھونس قائم کرنے کو کامیابی گردان رہے ہیں۔ احتساب کے نام پر من مانی کی جا رہی ہے، انصاف کے نام پر رعب جمایا جا رہا ہے، انتظام کے پر بدانتظامی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے اور بہرحال بڑھنا ہے تو پھر ہر ادارے کو اپنی اپنی حد میں رہ کر، کام کرنا ہو گا۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم کا منصب مرکزی اہمیت اور حیثیت رکھتا ہے۔اسے براہِ راست عوام کا اعتماد حاصل ہوتا ہے، اور عوام ہی کی طاقت سے وہ ذمہ داری سنبھالتا ہے۔وزیراعظم کا احترام سب پر لازم ہے، اور وزیراعظم پر سب کا احترام۔اگر وزیراعظم دوسروں کا احترام نہ کرے، اور دوسرے اس کا احترام نہ کریں تو پھر ماحول میں ٹھہراؤ پیدا نہیں ہو سکے گا۔انتخابی مہم کے لہجے سے وزیراعظم کو بھی باہر نکلنا چاہئے اور حریفوں کو بھی۔ ہم دُنیا کا کوئی انوکھا ملک نہیں ہیں،کئی ممالک میں پارلیمانی نظام قائم ہیں، اور ہماری ہی طرح کا سیاسی عمل جاری ہے۔ وہاں بھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں، اور انہیں انتخاب لڑنا پڑتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے حکومت تشکیل پاتی ہے، اور ایک مقررہ وقت تک وہ امورِ مملکت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ایک ووٹ کی اکثریت سے بھی حکومتیں بنتی اور چلتی ہوئی دیکھی گئی ہیں۔ بعض اوقات مجموعی طور پر کم ووٹ لینے والے پارلیمنٹ میں اکثریتی نشستیں حاصل کر لیتے ہیں اور زیادہ ووٹ لے کر بھی کم نشستیں حصے میں آتی ہیں۔ اس لئے اکثریت حاصل کرنے کا مطلب ”ویٹو پاور“ حاصل کر لینا نہیں ہے۔حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی نفی کرنے کے مرض میں مبتلا ہو جائیں تو اس سے بڑی بیماری کوئی لاحق نہیں ہو سکتی۔ بدقسمتی سے پاکستانی سیاست اس حوالے سے کوئی خوش نما منظر پیش نہیں کر رہی۔جناب وزیراعظم اور اپوزیشن دونوں سے 2020ء میں یہ توقع رکھی جانی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے تعلقات کار قائم کرنے کی اہمیت کو سمجھیں گے، اور اپنی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی طرف توجہ دیں گے…… مسائل جو کچھ بھی،اور مشکلات جتنی بھی زیادہ ہوں، ان کی طرف توجہ ترجیحات میں نمایاں ہو تو ان پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔2020ء سے یہ توقع لگائی جانی چاہیے کہ2019ء سے کچھ نہ کچھ سبق سیکھ لیا جائے گا۔