سال نیا، اندازِ سیاست پرانے؟
سال تو نیا ہے، سیاست پرانی ہے، اس میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔ اگر ”ہماری قیادت“ خود ہی یہ سوچ لے کہ سال گیا تو محاذ آرائی بھی جائے اور استحکام آ جائے، شاید اسی صورت مہنگائی اور بے روز گاری میں کمی واقع ہو، اللہ معاف فرما دے اور موسمی آفات سے محفوظ کر دے۔ اگر قلفی جمانے والی برف اور ٹھنڈی ہوا کے ساتھ دھند ہی دیتا ہے تو پھر وہ اسباب بھی پیدا فرما دے جن سے اس مشکل کا سامنا کرنے میں سہولت ہو۔ ورنہ لوگ ٹھٹھر رہے ہیں اور مراعات یافتہ تحفظ میں ہیں۔ ننھے ننھے بچوں کے پاؤں میں جوتے اور تن پر پورے کپڑے نہیں اور یہ سب شلوار قمیض پر کوٹ پہن کر بھی مطمئن ہیں کہ کار سے دفتر اور گھر تک سردی سے محفوظ ہیں۔ اور ان حضرات کو یہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔
کہہ تو یہی رہے ہیں کہ دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔ بھوکوں کو کھانا اور سر چھپانے کی جگہ بھی مل جائے گی اگرچہ ابھی تک تو مہمان خانے اور لنگر خانے ہی ملے ہیں۔ جیسے کسی پیر کے مزار پر ہوتا ہے۔ یہ بھی توقع ہے کہ جوش پر ہوش اور فہم و ادراک کی یورش ہو جائے گی لیکن عملی اقدامات تو اب بھی پہلے جیسے ہی ہیں کہ اگر کسی کو اعتبار نہیں تو تازہ ترین فیصلے پر نظر ڈال لے جو کپتان کی قانونی ٹیم نے کیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کر لیا گیا کہ چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کا مسئلہ آرمی ایکٹ کے ذریعے حل کیا جائے گا اور آرمی ایکٹ کی دفعہ 255 میں ترمیم کر کے نہ صرف آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا دی جائے گی بلکہ وزیر اعظم کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ مسلح افواج کے کسی بھی سربراہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کے لئے سفارش کر کے صدر مملکت کو بھیجیں جو (صدر) وزیر اعظم کی ”ایڈوائس“ پر عمل کے پابند ہیں۔ یوں یہ مسئلہ جسے باقاعدہ تنازعہ بنایا گیا آسانی سے حل ہو جائے گا۔ اس میں جو تبدیلی آئی وہ صرف یہ ہے کہ اپوزیشن سے بھی رابطہ کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ پرویز خٹک کی سربراہی میں چار رکنی پارلیمانی کمیٹی اپوزیشن سے رابطہ کرے گی کہ ایکٹ (ترمیمی) متفقہ طور پر منظور ہو سکے ورنہ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت تو ہے۔
اتحادیوں کی مدد اور تعاون سے یہ بل منظور بھی کرایا جا سکتا ہے۔ اور سینٹ میں بھی دقت نہیں ہو گی کہ کوئی مخالفت (توسیع کی) کرنا ہی نہیں چاہتا، البتہ ریٹائرمنٹ کی عمر اور طریق کار پر تو بحث اور نکتہ چینی لازم ہے۔ اس فیصلے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کپتان کی لیگل ٹیم نے قوم کو غچہ دیا یا خود بھول بھلیوں میں رہے کہ پہلے سپریم کورٹ فل بینچ کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کر دی گئی ہوئی ہے۔ جو سماعت کے لئے موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد سنی جائے گی۔ دونوں میں سے کوئی ایک کوشش تو غلط ہے ورنہ پہلے ہی فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست پیش نہ کرتے اور ایکٹ ہی میں ترمیم کرا لیتے۔ بہر حال اب 255 میں ترمیم کابل پیش ہونا ہے۔ سرکاری پارٹی کی چار رکنی ٹیم اپوزیشن سے رابطے کرے گی۔ جو توسیع سے تو منکر نہیں ہو گی، لیکن ان کے لئے بل کے مسودہ اور طریق کار پر نکتہ چینی کا حق تو ہے اور ایسا ہوگا اگر تحمل سے کام لیا گیا اور بل پیش کرتے وقت تک اپوزیشن کی حمایت بھی مل گئی تو کیا کہنے! ایسا ہو ہی جائے گا تاہم اپوزیشن کے اعتراضات بجا اور اپنی جگہ پر ہیں۔
اب سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا والا فلسفہ بھی چل رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے عین وقت پر دانہ پھینکا اور سنجیدگی سے پیشکش کی کہ اگر متحدہ وفاقی حکومت سے الگ ہو جائے اور پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر وزیر اعظم کو منصب سے ہٹانے کی جدوجہد کرے تو ان کو صوبے میں وزارتیں دے سکتے ہیں۔ ہم اور ہم جیسے دوسرے حضرات نے اس اقدام کو یوں جانا کہ آصف علی زرداری کی ڈپلومیسی نے مزید گہرا کیا ہے کہ سندھ کے وزیر بلدیات نے اپنی وزارت کی بھی پیشکش کر دی اس کے ساتھ ہی بلاول نے دو قدم اور بڑھائے بلدیاتی نظام میں موثر تبدیلیوں پر غور کیا اور ہدایت کی کہ اس نظام کو فعال کیا جائے۔ میئر اور ڈپٹی میئر کو مالی اور انتظامی اختیارات دیئے جائیں۔ یوں سیاست میں تو کیا ہلچل ہونا تھی متحدہ کی اپنی صفوں میں اس پیشکش پر دو مختلف آرا بن گئیں۔ ایک موثر آواز یہ تھی کہ پیپلزپارٹی اور وفاقی اپوزیشن کے ساتھ مل کر اندر سے تبدیلی کا سامان پیدا کر دیا جائے تو زیادہ فائدہ ہے کہ رند بھی رہیں گے اور جنت بھی مل جائے گی کہ ایک وسیع اتحاد کی وفاقی حکومت میں نشستیں محفوظ ہوں گی اور صوبے میں بھی حصہ مل جائے گا یوں دہرا فائدہ ہوگا۔ یوں بھی صوبائی حکومت میں حصہ اور بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات میں اضافہ متحدہ ہی کے مفاد میں ہے۔
کسی نے بلاول کی کہی بات کا مذاق بھی اڑایا، ایسے حضرات کو غور کرنا ہوگا کہ متحدہ کچھ عرصہ سے تحفظات کا اظہار کرتی چلی آ رہی تھی اور کراچی، حیدر آباد کے لئے وفاقی سے فنڈز لینا چاہتی تھی جو براہ راست بلدیاتی اداروں کو ملیں کہ حیدر آباد اور کراچی میں متحدہ ہی برسر اقتدار ہے، چنانچہ اس بار گورنر ہاؤس میں گورنر اور وفاقی وزیر اسد عمر متحدہ والوں کو مطمئن نہ کر سکے۔ جو فوری عمل چاہتی ہے، اور وزیر اعظم کے اعلان کردہ فنڈز کی فراہمی کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے، یہ سب باتیں کھل کر سامنے آ گئیں اور وزیر اعظم نے اپنے اہم کھلاڑی جہانگیر ترین کو میدان میں اتار دیا ہے کہ وزیر اعظم کو ان کی ”اہلیت“ پر پورا بھروسہ اور یقین ہے، وہ تو اختر مینگل کو بھی راضی کرنے کے اہل ہیں۔ ویسے بات تو سیاں کی ہے ”اگر سیاں ٹھہرے کوتوال کو پھر ڈر کاہے کا“ اور تا حال کوتوال تو اپنے سیاں ہیں اور یقین ہے کہ وہ رہیں گے اور بیانیہ بھی جاری رہے گا۔ کہنے والے کہتے ہیں ”ستے خیراں نیں“ تاہم ہماری گزارش تو اب بھی یہ ہے کہ قومی مسائل پر قومی اتفاق رائے ہی بہترین حل ہے اور ایسا اب ہو جانا چاہئے۔ انا کے بت کو پاش پاش ہونا چاہئے بلکہ خود ہی توڑ کر چور چور کر دینا چاہئے۔