آٹے کا بحران سر اٹھانے والا ہے؟
چند روز قبل وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے کہا تھا کہ سندھ میں آٹے کا بڑا بحران آنے والا ہے، حکومت کی غلط پالیسیوں اور کرپٹ پریکٹس سے فلور ملز بے لگام ہیں۔ یہ بات انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہی تھی۔ ان کا کہنا غلط نہیں، سندھ حکومت نے ملز مالکان کو تو سستی گندم فراہم کی تھی، لیکن آٹے کی قیمت کا تعین نہیں کیا گیا تھا، جس کے باعث شہری اب بھی چکیوں اور دکانوں سے مہنگا آٹا خرید رہے ہیں۔ دوسری جانب چکی مالکان کا کہنا ہے کہ ملز مالکان کو سستی گندم فراہم کی گئی،لیکن اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت بہت زیادہ ہے،جس کے باعث چکیوں پر آٹے کی قیمت میں کمی کرنا ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آٹے کے نرخوں میں اضافے کے حوالے سے صورت حال دوسرے صوبوں میں بھی مختلف نہیں ہے۔
کیا یہ ایک عجیب معاملہ نہیں ہے کہ ملک میں گندم کا وافر ذخیرہ موجود ہے اور حکومت نے آٹے کی برآمد پر پابندی بھی عائد کر دی ہے، اس کے باوجود آٹے کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ابھی چھ ماہ پہلے آٹے کے نرخ تینتیس چونتیس روپے فی کلوگرام تھے، لیکن اب یہ اڑتالیس تا پچاس روپے فی کلو تک پہنچ چکے ہیں،جبکہ گلی محلوں میں کھولی گئی نجی چکیوں پر آٹے کے نرخ ساٹھ سے چھیاسٹھ روپے فی کلو تک پہنچ چکے ہیں۔ اس طرح چھ ماہ کے اندر اندر آٹے کے نرخ 30 فیصد سے زائد بڑھ چکے ہیں ……لیکن اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہیں کہ گندم کا وافر ذخیرہ موجود ہونے کے باوجود آٹے کے نرخوں میں اتنا زیادہ اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انتظامیہ میں اس حوالے سے رابطہ کاری کی شدید کمی ہے،دوسرا سبب یہ ہے کہ پابندی کے باوجود خیبر پختونخوا کے راستے آٹے کی افغانستان سمگلنگ مکمل طور پر رکی نہیں ہے۔
ملک میں گندم کا وافر ذخیرہ تو موجود ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ گزشتہ سال کی نسبت کم ہے۔ امسال اگست میں پاکستان کے پاس 7.42 ملین ٹن گندم موجود تھی،لیکن موجودہ سال میں گزشتہ سال کی نسبت سوا تین ملین ٹن کم ہے۔ گزشتہ سال یہی ذخیرہ 10.77 ملین ٹن تھا۔ اس صورت حال میں گندم درآمد کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟آٹے کی بیرون ملک سمگلنگ مکمل طور پر روکنے کے لئے مزید کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں اور آئندہ برس گندم کی پیداوار بڑھانے کے لئے اب تک کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ ان سوالوں کے جواب کہیں سے دستیاب نہیں، جبکہ یہ واضح ہے کہ ان معاملات پر توجہ نہ دی گئی تو آئندہ سال، اس سال کی نسبت آٹے کا زیادہ بڑا اور شدید بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔آٹا ہمارے ملک میں خوراک کا سب سے اہم جزو ہے۔
اس سے روٹی بنائی جاتی ہے، جو مختلف قسم کے سالنوں کے ساتھ کھائی جاتی ہے، یعنی سالن مختلف ہو سکتے ہیں،لیکن بنیادی چیز یہی آٹے سے بنی ہوئی روٹی ہی ہوتی ہے۔ اس کی قیمت میں چھ ماہ میں 30 فیصد اضافے کا مطلب ہے کسی بھی شخص کے کچن کے بجٹ میں تیس فیصد اضافہ ہو جانا، جبکہ اس کی آمدنی میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ چلیں متوسط اور متمول طبقے تو اس صورت حال سے کسی نہ کسی طور نمٹ لیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ غریب، دیہاڑی دار، خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور و بے کس آخر کس طرح اس اضافے کا بوجھ برداشت کر سکیں گے؟ دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ ٹماٹر کی قیمت ابھی مستحکم نہیں ہوئی کہ دوسری سبزیوں کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ ہو گیا ہے۔ اس پر مستزاد آٹے کے بڑھتے ہوئے نرخ اور آٹے کی قلت کا سر اٹھاتا ہوا بحران۔
اب آٹے کے نرخ بڑھے ہیں تو لا محالہ تنوروں پر روٹی اور نان کے نرخ بھی بڑھیں گے جو پہلے ہی بالترتیب آٹھ اور بارہ روپے ہو چکے ہیں۔ روٹی اور نان کے نرخوں میں اضافہ ابھی چند ہفتے یا یوں کہہ لیں چند ماہ پہلے ہی ہوا ہے اور وجہ اس کی بتائی گئی تھی گیس کے نرخوں میں اضافہ،جبکہ صورت حال یہ ہے کہ گیس کے نرخ ایک بار پھر بڑھانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں صورت حال یہ بن جائے گی کہ روٹی اور نان آبادی کے ایک اور بڑے حصے کی پہنچ سے دور ہو جائے گا، یعنی دوسرے لفظوں میں غربت میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ جب گیس کے نرخ بڑھائے جانے کے بعد تنوروں پر روٹی اور نان کے نرخوں میں اضافے کا تقاضا کیا جا رہا تھا اور کچھ شہروں میں اضافہ کر بھی دیا گیا تھا تو ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے بڑی معصومیت سے یہ سوال پوچھا تھا کہ آٹے اور گندم پر تو کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، اس کے باوجود نان اور روٹی کی قیمت پتہ نہیں کیوں بڑھائی جا رہی ہے؟ یعنی انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ بھی اشیائے صرف، خصوصی طور پر کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ جب اعلیٰ سرکاری افسر اتنے سادہ لوح ہوں تو بحران کیوں نہ پیدا ہوں؟ حقیقت یہ ہے کہ افراط زر بے حد بڑھ چکا ہے، لوگوں کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، جبکہ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ لوگوں کے لئے اپنے کچن کے اخراجات پورے کرنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس موقع پر مجھے کہیں پڑھا ہوا ایک فقرہ یاد آ رہا ہے کہ ”مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کو اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لئے کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے“…… اس سے پہلے کہ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگ خود اپنا ہی گلا گھونٹنا شروع کر دیں،حکومت کو مہنگائی کم کرنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔