قومی اسمبلی، وزرا ء کی غیر حاضری پر حکومتی رکن کا احتجاج، کورم کی نشاندہی، اپوزیشن کا واک آؤٹ
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزراء کی غیر حاضری معمول بن گئی،پی ٹی آئی ارکان بھی اپنی ہی حکومت سے نالاں ہوگئے،پی ٹی آئی کے جنید اکبر نے سوالات کے جواب نہ ملنے پرکورم کی نشاندہی کر دی جبکہ اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی پر احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا۔جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ تاخیر سے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت شروع ہوا۔ڈپٹی سپیکر نے وقفہ سوالات شروع کیا تو اپوزیشن ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر نقطہ اعتراض پر بات کرنے کیلئے ڈپٹی سپیکر سے فلور مانگا اور کہا کہ وقفہ سوالات میں متعدد سوالوں کے جواب نہیں دئیے گئے اور نہ ہی وفاقی وزراء ایوان میں موجود ہیں،ڈپٹی سپیکر نے وضاحت کی کہ وزیر توانائی عمر ایوب خان نے درخواست کی ہے کہ ان کی کچھ مصروفیات ہیں اس لئے ان کے سوالات موخر کئے جائیں،پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ وقفہ سوالات مذاق بنا دیا گیا ہے، اگر یہی حالات ہیں تو پھر وقفہ سوالات کا مقصد کیا ہے اس پر رولنگ دی جائے اور وزارتوں کوبروقت سوالات کا جواب دینے کا پابند کیا جائے۔اس دوران حکومتی رکن جنید اکبر نے بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کیا اور کہاکہ میں کورم کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں،ڈپٹی سپیکر نے جنید اکبر کو فلور دیا تو انہوں نے کورم کی نشاندہی کر دی۔جس پر ڈپٹی سپیکر نے گنتی کا حکم دیا۔کورم کی گنتی کے دوران پیپلزپارٹی کے راجہ پرویزاشرف نے کہاکہ ہم یہاں ایوان کی کارروائی چلانے کیلئے آتے ہیں،حکومتی رکن خود ہی کورم کی نشاندہی کر رہے ہیں ان کا کام کورم کی نشاندہی کرنا نہیں بلکہ ایوان کو چلانا ہے،انہوں نے کورم کی نشاندہی کی ہے تو ہم احتجاجا واک آؤٹ کرتے ہیں۔اپوزیشن نے حکومتی رویہ کیخلاف واک آؤٹ کر گئی۔ڈپٹی سپیکر نے گنتی کے بعدکورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کی کارروائی کورم پورا ہونے تک ملتوی کر دی۔اجلاس کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد تحریک انصاف کے فیصل آباد سے رکن راجہ ریاض نے بلند آواز میں کہا کہ اگر کوئی وزیر ایوان میں موجود ہے تو پلیز کورم پورا کرے،وزراء کی ذمہ داری ہے کہ وہ کورم پورا کریں۔بعد ازاں اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ نہایت دکھ کے ساتھ بات کر رہا ہوں اور شرمندگی محسوس ہو رہی ہے، حکومت نے جس انداز میں ایوان کی کارروائی میں حصہ لیا اور خود ہی کورم کی نشاندہی کر دی، اس سے حکومت کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے،۔وفاقی وزیر مراد سعید نے کہا کہ سوالات کے دوران وزراء اور سیکرٹریوں کی حاضری ضروری ہے، اپوزیشن نے ڈیڑھ سال بعد اچھی بات کی ہے، پروڈکشن آرڈر کے علاوہ ایجنڈا اور وقفہ سوالات پر بات کی ہے۔پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ وزراء اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہی نہیں ہیں، پارلیمانی سیکرٹریز ذمہ دار نہیں ہیں، کیا وزراء موج مستی کیلئے ہیں سپیکر ہمارے حقوق کا تحفظ کریں، رولنگ دیں۔ وفاقی وزیر پرویز خٹک نے کہا کہ سپیکر کی ذمہ داری ہے کہ وقفہ سوالات میں متعلقہ وزیر کو لازمی حاضر کرنا ہے، غیر حاضر سیکرٹریوں کے خلاف کارروائی کریں، آئندہ یقینی بنائیں گے کہ متعلقہ وزیر اسمبلی میں موجود ہوں، آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ اس موقع پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے رولنگ دی کہ وقفہ سوالات انتہائی اہم ہے، تمام وزراء وزراء مملکت اور سیکرٹریوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ سوالات کے جوابات کیلئے حاضر ہوں، آئندہ یہ رویہ سامنے نہیں آنا چاہیے،غیر مناسب رویہ ترک کریں۔قومی اسمبلی کو حکومت نے آگاہ کیا ہے کہ2019 میں زیر حراست اور ماورائے عدالت قتل سے متعلق 45 کیسز رپورٹ ہوئے،تحریک انصاف کی حکومت کے دوران پولیس کی حراست میں ہلاکت کے 16 کیسز پنجاب میں رجسٹر ہوئے،592پاکستانی قیدی بھارت اور 308 افغانستان کی جیلوں میں قید ہیں،پشاور تا ڈی آئی خان موٹروے کا منصوبہ سی پیک کے جوائنٹ ورکنگ گروپ کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔پشاور موڑ تا اسلام آباد نئے ائرپورٹ میٹرو منصوبے پر 90 فیصد کام مکمل ہو گیا۔یہ تمام تفصیلات جمعرات کووزارت انسانی حقوق،وزارت خارجہ اور مواصلات نے قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے سوالوں کے تحریری جواب میں پیش کیں۔علاوہ ازیں قومی اسمبلی کی کارروائی کو وزارتوں نے غیر سنجیدہ لینا شروع کر دیا، وقفہ سوالات میں ارکان کی جانب سے پوچھے گئے 63 سوالات میں سے 47 سوالات کے جوابات فراہم نہ کئے گئے،جواب نہ دینے والی وزارتوں میں توانائی،مواصلات،قانون و انصاف اور وزارت خارجہ شامل ہیں۔
قومی اسمبلی