اگرامریکااورایران میں جنگ ہوئی تو کن کن ممالک کی تنظیمیں ایرانی پکار پرلبیک کہیں گی؟رپورٹ آگئی

اگرامریکااورایران میں جنگ ہوئی تو کن کن ممالک کی تنظیمیں ایرانی پکار پرلبیک ...
اگرامریکااورایران میں جنگ ہوئی تو کن کن ممالک کی تنظیمیں ایرانی پکار پرلبیک کہیں گی؟رپورٹ آگئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تہران(ڈیلی پاکستان آ ن لائن)ایرانی پاسداران انقلاب کے جنرل کی ہلاکت کے بعد اگر ایران اور امریکا میں باقاعدہ جنگ ہوئی تو ایران کوسب سے زیادہ مدد اس نیٹ ورک سے ملے گی جومختلف ممالک میں مرحوم جنرل قاسم سلیمانی کا بنایاہواہے۔
امریکی خبررساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرایران جنگ کا طبل بجاتا ہے تو خطے بھر میں موجود اس کی اتحادی عسکری ملیشیائیں پورے مشرق وسطیٰ میں امریکااور اس کے اتحادیوں کو باآسانی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی حملے میں مارے جانے والے ایرانی جنرل کے بنائے نیٹ ورک میں شام، عراق ، لبنان، یمن اور غزہ پٹی میں ہزاروں ایسے باوفا افراد تیارکئے جو ایران کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے۔رپورٹ کے مطابق مختلف ناموں کے ساتھ کام کرنے والی تنظیموں میں شامل ان افراد کو تہران حکومت کی جانب سے امداد، اسلحہ اور تربیت فراہم کی جاتی رہی ہے۔
ماضی میں ایران ان گروپس کو اسرائیل اور دیگر مخالفین کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے تاہم جنرل سلیمانی پر کئے گئے ڈرامائی حملے نے میدان جنگ کو وسیع کردیا ہے۔ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے نے بیان دیا ہے کہ سخت انتقام امریکا کا منتظر ہے ۔
ذیل میں نظر ڈالتے ہیں ان مسلح تنظیموں پر جو ایرانی پکار پر لبیک کہہ سکتی ہیں۔
عراقی ملیشیائیں:
دوہزار تین میں دہشت گرد تنظیم داعش کے وجود میں آنے کے بعد ان سے مقابلے کیلئے ایران نے عصیب اہل احق ، کتیب حزب اللہ اوربدرآرگنائزیشن جیسی تین انتہائی طاقتوراور نمایاں تنظیمیں تیارکیں اور انہیں داعش کیخلاف جنگ میں اتارا۔ان تنظیموں میں کتیب حزب اللہ کے سربراہ ابو مہدی المہندس تھے جو آج جنرل سلیمانی کے ساتھ ہی جاں بحق ہوگئے ہیں، یہ ملیشیاعراق کی پاپولر موبلائزیشن فورس کی چھرتی تلے کام کرتی ہے اور اس میں ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد جنگجو شامل ہیں۔اگرچہ اس جماعت کی سرپرستی عراقی وزیراعظم کو منتقل کردی گئی تھی تاہم اس کے تمام مرکزی رہنماایران سے زیادہ قریب ہیں۔ یہ تمام جنگجو دوہزار چودہ میں امریکا کے ساتھ ملکر بھی داعش کیخلاف لڑتے رہے ہیں۔تاہم اب اس تنظیم کے سربراہان کا کہناہے کہ امریکا عراق چھوڑ دے جس پر ان میں اختلاف ہوگیا۔

حزب اللہ:
حزب اللہ کے نام سے کون واقف نہیں ہے،اس تنظیم کو بھی ایرانی پاسداران انقلاب نے ہی اسی کی دہائی میں تیارکیاتھااور آج یہ خطے کی سب سے بڑی مسلح فورس بن چکی ہے جو اسرائیل کے در تک پہنچی ہوئی ہے۔1982میں قائم کی گئی اس تنظیم کا مقصد اسرائیل کے جارحانہ عزائم کو روکنا تھا۔ تنظیم نے اسرائیل کیخلاف اٹھارہ سالہ طویل گوریلا جنگ لڑنے کے بعد اسے لبنان سے نکل جانے پر مجبور کردیا۔اس گروپ کے پاس موجود دسیوں ہزارراکٹ اور میزائل اور لاکھوں کی تعداد میں جنگجو امریکا اور اس کے اتحادیوں کیلئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔

یمن کے حوثی
2014 میں یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرنے والے یمن کے شیعہ حوثی باغی بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کیلئے مصیبت کھڑی کرسکتے ہیں۔اس جنگ میں سعودی عرب بھی کود پڑاجس کانتیجہ انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں اور ہزاروں ہلاکتوں کی صورت میں نکلا۔حوثیوں نے اتحادی فورسز کو نہ صرف یمن میں نقصان پہنچایابلکہ ریاض پرمیزائل حملے بھی کئے۔لاکھوں حوثی باغی بھی ممکنہ کشیدگی میں ایران کی کئی مشکلات حل کرنے میں مددگارثابت ہوسکتے ہیں۔

غزہ کی مسلح تنظیمیں
ایران نے ایک طویل عرصے تک فلسطین کی جدوجہد آزادی کیلئے لڑنے والی مسلح تنظیموں کو سپورٹ کیا ہے۔حماس ہویااسلامک جہاد گروپ ایران نے دونوں کو بھرپور سپورٹ کیا۔اگرچہ 2011کے عرب بہارمیں حماس کو ایران سے ملنے والی لاکھوں ڈالرز کی امداد بند ہوگئی تھی تاہم ایران نے اسے بعدمیں بحال کرنے کا دعویٰ کیاتھا۔حماس اور اسلامک جہاد کسی بھی ممکنہ لڑائی کی صورت میں ایران کے مددگار ہوسکتے ہیںجو امریکا،اسرائیل اورخطے میں اس کے دیگراتحادیوں کیلئے پریشان کن صورتحال پیداکرسکتے ہیں۔