کب جائے گا سونامی؟

کب جائے گا سونامی؟
کب جائے گا سونامی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


نہ جانے کس عقلمند نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ”غیر سیاسی ڈیل“ کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرنے کو سونامی کا نام دیں اور انہوں نے بھی ”سونامی آ گیا“ کا نعرہ لگا دیا۔ حقیقت میں سونامی بہت بڑی تباہی کا نام ہے جو ہر چیز ملیا میٹ کر کے رکھ دیتا ہے۔ عمران خان نہ صرف پاکستان بلکہ اس کے بائیس کروڑ عوام اور مقبوضہ کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ غیور مسلمانوں کے لئے ایسے سونامی ثابت ہوئے جس نے ہر چیز کو تباہ کر دیا ہے۔ کشمیری عوام ڈھائی سال سے بھارتی سنگینوں کے سائے میں کرفیو میں زندگی گذار رہے ہیں اور پاکستانی عوام آئی ایم ایف کی بھوکوں ننگوں کی نوآبادی بن کر رہ گئے ہیں۔ عمران خان نے آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازم کو سٹیٹ بینک پاکستان کا سربراہ مقرر کر رکھا ہے جو ہر وقت آئی ایم ایف کا شکنجہ مضبوط کرتا رہتا ہے اور پاکستانی عوام کی ہڈیوں سے گودا تک نچوڑ لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔کشمیری عوام کیسے بھول سکتے ہیں کہ22 جولائی 2019ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کو واشنگٹن طلب کیا تھا اور اس کے ٹھیک دو ہفتے بعدبھارتی وزیر اعظم نے مقبوضہ جموں کشمیر اور لداخ کو باقاعدہ ہڑپ کر کے انہیں بھارتی ریاست بنا دیا تھا، جس کی جرأت اسے 72 سال میں نہیں ہوئی تھی۔ 16 دسمبر 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد 5 اگست 2019ء کو سقوط جموں کشمیر اور لداخ ہوا اور یہ دو نوں پاکستان کی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ ہزیمت کے دن تھے۔ اسلامی تاریخ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سقوط بغداد اور سقوط غرناطہ کے بعد ڈیڑھ ہزار سال میں سقوط ڈھاکہ اور سقوط سری نگر سب سے زیادہ شرمناک اور دردناک مواقع ہیں اور ان کے ذمہ داران کے نام ہمیشہ تاریخ میں درج رہیں گے۔ 


 لوگ یاد کرتے ہیں کہ جب میاں نواز شریف وزیراعظم اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے تو آئی ایم ایف سے معاہدہ برابری کی سطح پر ہوا تھا، جس میں آئی ایم ایف پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی طرح ڈیل کر رہا تھا اور انہوں نے عوام پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر کامیابی سے پروگرام پورا کیا تھا،جس کا تمام فائدہ پاکستان اور عوام کو ہوا تھا۔میاں نواز شریف نے 5 جون 2013ء کو وزیراعظم کا حلف اٹھایا تھا اور اس کے ٹھیک ایک ماہ بعد 5 جولائی 2013ء کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور آئی ایم ایف نے معاہدہ پر دستخط کر دیئے تھے، جن میں کوئی ایسی شرائط نہیں عائد کی گئی تھیں جن سے پاکستانی عوام پر بوجھ پڑتا اور اس کے بعد نواز شریف حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑی، کیونکہ اس کے وزیر خزانہ اور پوری معاشی ٹیم پاکستان کے نمائندے اور عوام کے خدمت گذار تھے، آئی ایم ایف کے نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کامیابی سے پروگرام مکمل کیا اور با عزت طریقہ سے پاکستان کی لاج اور عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کو مقدم رکھا۔ دوسری طرف جب عمران خان حکومت آئی تو اس کے پہلے وزیر خزانہ اسد عمر آٹھ ماہ تک آئی ایم ایف سے مسلسل مذاکرات کرتے رہے۔ طول پکڑ جانے کی وجہ سے آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہوتی چلی گئیں۔

اگر اسد عمر بھی اسحاق ڈار کی طرح ایک ماہ میں معاہدہ کر لیتے تو یہ مسلم لیگ (ن) حکومت کی طرح برابری کی سطح پر ہوتا۔ عمران خان اور اسد عمر کی نالائقی کا خمیازہ پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑا اور جوں جوں وقت گذرتا گیا آئی ایم ایف کی شرائط سخت سے سخت تر ہوتی چلی گئیں۔ عالمی ساہو کار یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ سونامی سرکار نے تمام دوست ملکوں سے تعلقات بگاڑ لئے ہیں اور چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات جیسے جان چھڑکنے والے دوست ممالک بھی پاکستان کے قریب نہیں رہے اور دوسرے کئی ممالک جن سے اچھے تعلقات تھے جیسے ترکی، قطر، کویت، ملائشیا، جاپان، کینیڈا اور یورپی یونین کے ممالک برطانیہ، جرمنی، فرانس اور ناروے وغیرہ سے بھی سرد مہری چل رہی ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف بلی سے شیر بن گیا اور عالمی طور پر تنہا پاکستان کو اقتصادی طور پر مکمل کالونی بنانے کا فیصلہ کیا اور اس نے اپنے نمائندوں ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزیرخزانہ اور رضا باقر کو گورنر سٹیٹ بینک مقرر کروا کر پاکستان کو باقاعدہ اپنی کالونی میں تبدیل کر لیا۔ دو سو سال قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کی غلامی کے بعد پہلی دفعہ پاکستان سامراج کا غلام بنا ہے اور تباہی کی علمبردار سونامی سرکار نے چند ٹکوں کے لئے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی ہے، جس کا خمیازہ بائیس کروڑ عوام کو نو آبادیاتی غلامی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ 


ترمیمی فنانس بل، یعنی منی بجٹ کو پارلیمینٹ سے منظور کرانے کا اجلاس فی الحال اس لئے ملتوی کرنا پڑا ہے، کیونکہ عمران خان حکومت کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں تھی۔ آئی ایم ایف کے حکم پر 370 ارب روپے کے ٹیکس استثنا ختم کرنے سے ملک میں ایسی تباہی آئے گی جو کروڑوں عوام کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گی۔ آئی ایم ایف نے اسے منظور کرانے کے لئے ایک ہفتہ، یعنی 12جنوری کی بجائے 19 جنوری تک مہلت دی ہے۔ سونامی سرکار ان چند ٹکوں کے لئے ہر قیمت پر اسے منظور کروائے گی۔ اسے قطعی پرواہ نہیں ہے کہ عوام کہاں سے کھائیں گے اور کہاں سے اپنی ضروریات پورا کریں گے، لیکن اسے محض آئی ایم ایف کالونی کا وائسرائے بنے رہنے کی دھن سوار ہے۔ اگر غیرت اور قومی حمیت کا ایک فیصد بھی پاس ہوتا تو وہ کبھی اتنی شرمناک شرائط نہ مانتی اور چین جیسے دوست ملکوں کے پاس جاتی جو ہر وقت پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔پاکستانی عوام کو اچھی طرح سمجھ آچکی ہے کہ صرف میاں نواز شریف ہی پاکستان کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں اور پچھلے تیس سال میں انہوں کئی بار اسے ثابت بھی کیا ہے، جس کسی نے بھی عمران خان کے ذہن میں سونامی کا لفظ ڈالا تھا، وہ بالکل سچا تھا، کیونکہ سونامی ایسی تباہی ہے جو ہر چیز کو ملیا میٹ کر دیتی ہے۔پاکستان کے بائیس کروڑ لاچار عوام انتہائی بے چارگی میں ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ ”کب جائے گا سونامی؟“

مزید :

رائے -کالم -