پنجاب پولیس کا جرائم کی شرح میں کمی کا دعویٰ
پاکستان میں بیوروکریسی کو طاقت اور اختیارات کا محور سمجھا جا تا ہے۔ یہ ایسی سول سروس ہے جس کے اعلی افسران ہی درحقیقت پالیسی میکر بھی ہوتے ہیں اور ملک کے نظام کو چلانے کے لئے اہم کردار بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ طاقت، اختیار اور عہدے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی سپیریئر کلاس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان میں سے زیادہ تر کی گردن میں سریا آ جاتا ہے اور ان کے نزدیک عام شہری کی حیثیت کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ہمارے سیاست دان جب الیکشن کے دوران یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ نظام کو بدل دیں گے تو درحقیقت وہ بیوروکریسی کا قبلہ بدلنے کی ہی بات کرتے ہیں لیکن ان کو بھی علم ہوتا ہے کہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔حکمران کسی کو بہتر نہ سمجھیں تو اس کا تبادلہ کر دیتے ہیں یا پھر اسے معطل کر دیتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ معطلی کے باوجود افسر شاہی کو گھر بیٹھے تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ بہت کم کیسز ایسے ہوں گے جس میں افسر شاہی کے کسی رکن کو برطرف کیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں بھی یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ بیوروکریسی خود کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتی۔ دوسری جانب ایسے افسران بھی اسی بیوروکریسی میں موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ نظام چل رہا ہے اور عوام کو کسی حد تک ریلیف مل رہا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی کوشش کرتے رہتے ہیں اوراس حلف کی پاسداری کرتے ہیں جو سروس میں آنے کے بعد انہوں نے اٹھایا ہوتا ہے،پنجاب میں پولیس کے نظام کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ کس طرح ایک آفیسر نے پورا پولیس سسٹم ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ موجودہ آئی جی پنجاب ”راؤ سردار علی خان“ نے انتہائی کم عرصہ میں پنجاب میں جبکہ سی سی پی او لاہور ”فیاض احمددیو“نے لا ہور میں عوامی خدمت کے ایسے دور رس اثرات کے حامل منصوبوں کی بنیاد رکھ دی ہے کہ دل کرتا ہے سرکار کو کہا جائے کہ جس طرح دیگر کئی اعلی افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد پبلک سروس کمیشن کا ممبر یا کسی اورمحکمے کا چیئرمین لگایا جاتا ہے اسی طرح موجودہ آئی جی پنجاب اور سی سی پی او کوان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پنجاب پولیس کے سربراہ ہی لگا دیا جائے تاکہ ایک بار پانچ چھ سال کی محنت سے یہ محکمہ مکمل طور پر عوامی محکمہ بن جائے گا، راؤ سردارعلی خان اور فیاض احمد دیو کی ریٹائرمنٹ میں کئی سال باقی ہیں اگر انھیں پورا موقع دیا گیاتوامید ہے محکمے کا مورال بہت بہتر ہو جائے گاموجودہ آئی جی پنجا ب راؤ سردار علی خان اور سی سی پی او لاہور فیاض احمددیو کا سب سے بڑا کارنامہ پنجاب میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح میں نمایاں کمی لاکر فورس کے مورال کو بلند کر نا ہے
۔پنجاب پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال کے آخری چار ماہ میں جرائم کے واقعات میں 44 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ لاہور میں گذشتہ چار ماہ میں قتل، اقدام قتل اور اغواء برائے تاوان کے واقعات میں 44فیصد جبکہ پنجاب میں قتل، اقدام قتل اور اغواء برائے تاوان کے کیسزمیں 48فیصد کمی آئی۔لاہورمیں گذشتہ چار ماہ میں ڈکیتی، چوری اور راہزنی کی وارداتوں میں 40فیصد جبکہ پنجاب میں ڈکیتی، چوری اور راہزنی کے واقعات میں مجموعی طور پر36 فیصد کمی آئی ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی فورس سے اس وقت تک نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے جب تک اس فورس کا مورال بلند نہ ہو اور ان میں قربانیاں دینے کا جذبہ نہ پایا جائے۔ یہ جذبہ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک فورس کو یہ معلوم نہ ہو کہ ان کا کمانڈر نہ صرف ان کے مسائل سے واقف ہے بلکہ انہیں حل بھی کر رہا ہے۔اس حوالے سے بھی اگر پنجاب پولیس کی تاریخ میں کسی کا نام یاد رکھا جائے گا تو وہ موجودہ آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان اور سی سی پی او لاہور فیاض احمددیوہی ہیں۔جنہوں نے پولیس کے گرے ہوئے مورال کو نہ صرف بہتر کیا ہے بلکہ فورس میں کام کرنے کاایک نیا جذبہ پیدا کیا ہے،آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لا ہور نے مشتر کہ کو شش کر کے لاہور پولیس میں پائی جانیوالی بے چینی کا خاتمہ کر کے اپنی فورس کے افسران میں یکجہتی پید اکی ہے امید کی جاتی ہے کہ یہ دونوں آفیسر وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کی گڈ بک میں ہونے کی وجہ سے سے تھانہ کلچر تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس موقع پر ایک انتہائی مخلص،حد سے زیادہ محنتی اپنے اور ادارے کے کمانڈر کی عذت کرنے والے پولیس آفیسرایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ”بی اے ناصر“ کا نام نہ لیا جائے تو ان کے ساتھ نہیں بلکہ ادارے کے ساتھ ناانصافی ہوگی ان کی زاتی کاوشوں اور محنت کی بدولت ہمیشہ پنجاب پولیس کا ماحول بہتر ہوا ہے اس کے لیے انھیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ ان کی محنت سے کہیں کم ہو گا۔وزیر اعلی پنجاب کے یہ اقدامات بتاتے ہیں کہ حکومت کا انہیں اس اہم سیٹ پر تعینات کرنے کا فیصلہ کس قدر درست تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ اگر وہ واقعی حقیقی معنوں میں نیا پاکستان چاہتے ہیں تو پھر دیگر صوبوں میں بھی ایسے ہی نیک نام، محنتی اور ویڑنری افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کریں تاکہ وہ خواب جو اس ملک کے عوام نے دیکھا تھا اس کی تعبیر ہو۔