ماتحت عدالتوں میں مقدمات التوا کا شکار کیوں؟
ہمارے ملک کا عدالتی نظام جو کہ اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں پر مشتمل ہے، ایک کمزور اور پیچیدہ عدالتی نظام سمجھا جاتا ہے۔ پہلے اگر اعلیٰ عدالتوں کی بات کی جائے تو وہاں زیادہ تر ریاست کی اکائیوں، ریاستی اداروں اور وفاقی و صوبائی حکومتی محکموںکے درمیان آئینی حقوق و فرائض اور آئینی اختیارات و حدود کے بارے میں مقدمات دائر ہوتے ہیں اور اعلیٰ عدالتوں میں چونکہ دائر ہو نے والے مقدمات کی نوعیت اور طر یقہ کار ماتحت عدالتوں کے مقدمات سے مختلف ہوتی ہے جس سے ایک عام آدمی کا واسطہ نہیں پڑتا اس لئے عام آدمی کو اعلیٰ عدالتو ں سے زیادہ ماتحت عدالتوں سے شکایات ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب آزاد عدلیہ تحریک کے بعد ماتحت عدالتوں کی نسبت اعلیٰ عدالتوںکی کارگردگی اور مقدمات کے نمٹا نے میں تیزی بھی آئی ہے، لیکن اس کے برعکس ماتحت عدالتو ںمیں آج بھی اکثر مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں آج بھی دادا کے کا دائر کئے گئے مقدمے کا فیصلہ اس کا پوتا سُنتا ہے۔ ماتحت عدالتوں میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہی موجودہ نظام عدل پر عام آدمی کی بداعتمادی کی وجہ ہے۔ ماتحت عدالتوں میں مقدمات کے التوا ءکی لاتعداد وجوہات میں سے چند وہ وجوہات جو اس ملک کے عدل و انصاف کے نظام کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ان میںسے پہلی بڑی وجہ آج سے کئی سو سال پہلے بننے والے وہ قوانین ہیں جو انگریز نے اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کے لئے بنائے تھے۔ مثال کے طور پر عبوری حکم امتناعی کا قانون وہ قانون ہے جسے یکطرفہ طور پر حاصل کر نے کے لئے تو پانچ منٹ بھی نہیں لگتے، لیکن اس عبوری حکم امتناعی سے جان چھڑانے کے لئے کئی
دہائیاں لگ جاتی ہیں ۔ دیوانی مقدمات میں حکم امتناعی ، کسی بھی فیصلے کے خلاف متفرق درخواست کا قانون اور کسی بھی دیوانی فیصلے پر عمل درآمد (Execution) کے مقدمات میں متفرق درخواستوں کے قوانین وہ قوانین ہیں جو کسی بھی مقدمے کو اگلے دس سال تک بڑ ے آرام سے لٹکا سکتے ہیں ۔ ان قوانین کی روح اور مقصد تو شائد ٹھیک ہو، لیکن ان قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے کوئی طریقہ کار نہ ہو نے اور ہمارے قانون ساز اداروں کی روایتی سستی کی بدولت مندرجہ بالا قوانین آج دیوانی مقدمات میں فیصلوں کی تاخیر کی سب سے بڑ ی وجہ ہیں ۔ بدقسمتی سے نیشنل جوڈیشل پالیسی بھی ماتحت عدالتوں کی کارکردگی بڑھانے میں کارگر ثابت نہ ہوئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جن پرانے قو انین کو ہم نے بدل کر نئے قوانین بنائے ان میں انقلاب نہیں تو کافی بہتری آئی ہے مثال کے طور پر فیملی قانو ن ،کرایہ داری کے قانو ن ، کنزیومر کورٹس کا قیام، ضابطہ فوجداری ،ضابطہ دیوانی قوانین میں ترامیم ، انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا قیام وغیرہ ۔اسی طر ح فوجد اری مقدمات میں بے بس و لاچار مدعی کے ساتھ ساتھ سرکار کا مدعی ہونا ، پولیس کی روایتی تفتیش ، سرکاری وکیل پر انحصار جس پر پہلے ہی ایک ایک دن سو سے زیادہ مقدمات کا بوجھ سے فیصلوں میں بڑی تاخیر کا سبب بنتا ہے ۔ ماتحت عدالتوں میں مقدمات کے اِلتو ا کی دوسری بڑی وجہ نظم و نسق کی خرابی ہے کہ مثال کے طور پر مقدمات کی نوعیت کے حساب سے کوئی وقت مقرر نہیں ہے اور نائب عدالت ، ریڈر ،اہل مد اور منشیوں کی چالاکیاں اور سائلان کے ساتھ مخصوص رویے سے لے کر بخششیں لینے دینے کے معاملات وہ گورکھ دھندے ہیں جو وقت اور انصاف کے ساتھ ساتھ سائل کے جسم سے روح تک نکال لیتے ہیں ۔ لاہور ،کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں ہی ماتحت عدالتوں میں مقد مات کی تر تیب کا کوئی نظام نظر نہیں آتا تو پھر دُور دراز کے اضلاع کی عدالتوں کے بارے میں تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ اب جیسے اعلیٰ عدالتوں میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد اور اعلیٰ نظم ونسق سے مقدمات کے فیصلوں اور انصاف کی فراہمی میں ایک انقلا ب آیا ہے اگر اسی طر ح ماتحت عدالتو ں میں بھی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے اور نظم و نسق کے نظام کو بہتر کر دیا جائے تو شائد ماتحت عدالتیں جنہیں عام آدمی وقت اور انصاف کی مقتل گاہیں سمجھتا ہے میں بہتری آ جائے۔ ماتحت عدالتو ں میں مقد ما ت کے ِالتوامیں بدقسمتی سے بار اور بنچ بھی بر ابر کے شریک ہیں بار کونسلز اکثر ماتحت عدالتو ںمیں غیر ضروری ہڑ تال کا اعلان کروا دیتی ہیں اور جس دن ہڑتال ہو جائے تو ایک تو اس دن کام نہیں ہو تا دوسر ا اس دن مقدمات کی اگلی تاریخ اپنی مرضی سے مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تجربہ کار اور سینئر وکلاء صاحبان ماتحت عدالتوں میں خود پیش ہو نے کے بجائے نئے آنے والے وکلا ءصا حبان کو بھیج دیتے ہیں جن کا کام بغیر کسی کارروائی کے صرف اور صرف مقدمات میں اگلی تاریخ لینی ہو تی ہیں ۔ اسی طرح ماتحت عدالتو ں میںجج صاحبان کی اکثریت نئی ہو تی ہے اور وہ اپنے کیریر کا آغاز کر رہے ہوتے ہیں ان میں سے بطور جج اکثریت کو کورٹ کچہری کے ماحول سے اگاہی میں ہی ایک سے دو سال لگ جاتے ہیں۔ اگر نئے بھرتی ہو نے والے جج صاحبان کوچھ ماہ یا ایک سال تجربہ کار جج صاحبان کے ساتھ بطور نائب جج بٹھا دیا جائے تو وہ تجربہ کار ہو جانے کے بعد کارگردگی اچھی دکھا سکیں گے۔ مقدمات میں اِلتوا کی آخری اور نہایت ہی اہم وجہ عدالتوں کی کمی ہے آج بھی ایک جج صاحب کے پاس 200 سے لے کر300تک مقد مات لگے ہوتے ہیں، جج صاحب عدالتی وقت میں سارے مقدمات سن ہی نہیں سکتے تو ہر عدالت میں جج صاحب کو بقیہ مقدمات کو سننے کے لئے ایک اور تاریخ ڈالنی پڑتی ہے ۔ انصاف کے جلد فراہمی کے متعلق خوبصورت انگریزی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے justice delayed justice denied ترجمہ: انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف کا نہ ملنا ہے۔ ٭