افغانستان میں داعش کی تنظیم سے باخبررہنے کی ضرروت
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز(آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں، ہم نے داعش کو قدم جمانے نہیں دیئے، نہ اِس کا پاکستان میں کوئی منظم انفراسٹرکچر ہے تاہم افغانستان میں داعش مضبوط ہو رہی ہے اور افغان سیکیورٹی فورسز اس کے خلاف زیادہ سرگرم نہیں۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی روکنے کے لئے پاک افغان سرحد پر2600کلو میٹر تک باڑ لگانے کا فیصلہ کیا گیا، کام شروع ہو چکا ہے اور دو سے تین سال میں مکمل ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا انتہا پسندی کا خاتمہ جامع قومی کوشش سے ممکن ہے۔ آرمی چیف نے حال ہی میں پارا چنار کو سیف سٹی بنانے کی جو بات کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اسلام آباد اور لاہور میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں اسی طرح پارا چنار میں بھی لگائے جائیں گے، ایسی تنصیبات یہاں بھی نصب کی جائیں گی اور شہر کی مانیٹرنگ کی جائے گی۔اُن کا کہنا تھا پارا چنار طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے اِس لئے آرمی چیف نے اسے سیف سٹی بنانے کا اعلان کیا ہے تاکہ کم افرادی قوت سے ٹیکنیکل مانیٹرنگ زیادہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا پاکستان میں کسی جگہ بھی اس وقت کوئی نوگو ایریا نہیں تمام نوگو ایریاز پاک فوج نے ختم کر دیئے ہیں۔ خیبر ایجنسی میں راجگال اور شوال میں چھوٹے سے علاقے ہیں،جنہیں ہم نے کلیئر کرنا ہے، آرمی چیف کا واضح پیغام ہے کہ اتحاد سے بہتر کوئی چیز نہیں ہم سب پاکستانی، سب مسلمان ہیں جب تک متحد ہیں، دشمن ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔
پاکستان میں داعش ہے یا نہیں،یہ بحث کافی عرصے سے چل رہی ہے اور جب بھی مُلک کے کسی حصے میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو ساتھ ہی ایسی اطلاعات بھی آنے لگتی ہیں کہ یہ داعش کی کارروائی ہو سکتی ہے۔یہ بات کسی ٹھوس معلومات کی بنیاد پر کی جاتی ہے یا محض قیاس آرائی ہوتی ہے جس کا مقصد افراتفری پھیلانا اور لوگوں کو خوفزدہ کرنا ہو سکتا ہے۔پارا چنار میں دہشت گردی کی حالیہ واردات کے بعد بھی کہا گیا کہ یہ داعش کی کارروائی ہے اس کی بنیاد غالباً یہ اطلاع ہے کہ پارا چنار سے ملنے والے افغان علاقے میں داعش نے اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں اِس لئے ممکن ہے اس واردات میں داعش کے لوگ ملوث ہوں یا جنہوں نے کارروائی کی ہو انہوں نے اپنے آپ کو داعش سے نتھی کر کے سنسنی پھیلانے کی کوشش کی ہو۔ چند روز قبل سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی کہا تھا کہ وہ دو سال سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں داعش موجود ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر داخلہ رہ چکے ہیں اِس لئے اُن کی معلومات کا ذریعہ تو مصدقہ ہونا چاہئے، لیکن ہمارے مُلک میں سیاسی بنیاد پر جو بیانات دیئے جاتے ہیں اُن کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن میں کتنی حقیقت ہوتی ہے، کتنا فسانہ ہوتا ہے اور زیبِ داستان کے لئے کیا کچھ بڑھا دیا جاتا ہے، اِس لئے رحمن ملک کی بات کو مسترد کر کے ہمیں میجر جنرل آصف غفور کے اِس بیان کو مصدقہ اور حقائق کے قریب ترین تصور کرنا چاہئے جن کا یہ کہنا ہے کہ داعش افغانستان میں منظم ہے۔
اس بیان کی دوسرے شواہد سے بھی تصدیق ہو سکتی ہے، ایک تو عراق اور شام سے داعش کی پسپائی کا عمل تیزی سے جاری ہے، جن علاقوں پر اس نے قبضہ کر رکھا تھا وہ اب خالی کرائے جا رہے ہیں اور داعش وہاں سے بھاگ کر ایسے علاقوں میں قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے جہاں اُسے سہولت کار میسر آ سکیں۔داعش عراق و شام کے جن علاقوں سے فرار ہو رہی ہے وہاں تاریخی اہمیت کے مقامات کو بھی تباہ و برباد کرتی چلی آ رہی ہے۔حال ہی میں موصل میں مسلمان فاتح نور الدین زنگی کی تعمیر کردہ مسجد النوری کے حوالے سے یہ صدمہ پہنچایا گیا کہ اس کا جھکا ہوا مینار جو موصل شہر پر سایہ فگن رہتا تھا شہید کر دیا گیا، بارہ سو سال پرانی اِس تاریخی مسجد کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں کہ اسے پسپا ہوتے ہوئے داعش کے سپاہیوں نے خود ہی بارود سے شہید کر دیا اور الزام یہ لگایا کہ یہ امریکی بمباری سے تباہ ہوا ہے۔ تاریخی مسجد کی یہ شہادت المناک ہے اور اگر یہ داعش کے ہاتھوں تباہ ہوئی ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جو وہ تاریخی آثار بھی مٹا رہے ہیں جو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے گواہ ہیں اور ہمارے شاندار ماضی کی شہادت دیتے ہیں، اس مسجد کے ایک ستون سے باندھ کر داعش اپنے مخالفین کو پھانسیاں بھی دیتی رہی ہے۔
میجر جنرل آصف غفور کی اس اطلاع کے بعد کہ داعش افغانستان میں منظم ہو رہی ہے، پاکستان کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے،کیونکہ اس وقت پاکستان کے اندر جتنی بھی دہشت گردی ہو رہی ہے اس کا کھرا افغانستان سے ہی ملتا ہے، چنانچہ اِس مسئلے کا حل پاکستان نے اس امر میں تلاش کیا کہ سرحد سے افغانوں اور پاکستانیوں کی آمدورفت کو باقاعدہ بنایا جائے اور قانونی سفری دستاویزات کے بغیر کسی کو نہ اپنے مُلک سے جانے دیا جائے نہ کسی کو اندر آنے دیا جائے، چونکہ سرحد دشوار گزار ہے اِس لئے یہ عین ممکن ہے کہ اس پابندی کے باوجود دہشت گرد غیر روایتی راستے استعمال کر کے کسی نہ کسی طرح پاکستان میں داخل ہو جائیں،اِس لئے سرحد پر2600کلو میٹر تک باڑ لگانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے یہ کام اگرچہ کافی وقت لے جائے گا اور تین سال تک مکمل ہو گا اِس لئے اِس کام کو کسی نہ کسی وقت تو شروع کرنا ہی تھا افغانستان میں داعش کے منظم ہونے کی اطلاعات کے بعد یہ از بس ضروری ہو گیا ہے کہ سرحد پر نہ صرف باڑ تعمیر کی جائے، بلکہ نگرانی کے لئے چوکیاں بھی بنائی جائیں، کیونکہ بعید نہیں کہ افغانستان کے راستے داعش کے لوگ پاکستان میں بھی گھسنے کی کوشش کریں۔
اگر انہوں نے افغانستان میں طاقت پکڑ لی تو وہ لازماً پاکستان کا رُخ بھی کریں گے اِس لئے ابھی اِس سلسلے میں سخت نگرانی کی ضرورت ہے اِکا دُکا واقعات میں یہ اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ بعض لوگ داعش سے متاثر ہو کر اُن کے ساتھ شامل ہونے کے لئے بیرونِ مُلک بھی گئے اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کے لئے خود کش حملے کی تیاریاں بھی کرتے رہے، ایسی اطلاعات اگر پوری طرح درست نہ بھی ہوں، تو بھی اِن کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ مستونگ کے قریب غاروں میں کارروائی کر کے جن دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے ممکن ہے وہ باقاعدہ طور پر داعش سے تعلق نہ رکھتے ہوں تاہم دہشت گردی کی ٹیکنیک تو وہی استعمال کر رہے تھے اِس لئے ایسے واقعات کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس تنظیم کے وابستگان کو افغانستان سے پاکستان کا رُخ کرنے کا موقعہ نہ ملے۔افغانستان میں حال ہی میں دہشت گردی کے جو واقعات تواتر کے ساتھ ہوئے ہیں ان میں بھی داعش کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا اِس لئے اِس معاملے پر افغان حکام کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی ضرورت ہے، دونوں ممالک کے پاس اِس سلسلے میں جو اطلاعات ہیں اُن کا بھی تبادلہ ہونا چاہئے تاکہ ان کی روشنی میں کارروائی کی جا سکے، دونوں ممالک نے مل کر مشترکہ اقدامات کئے تو کامیابی کی امید بھی کی جا سکتی ہے۔افغانستان میں اگر داعش نے مضبوط ٹھکانے بنا لئے تو پھر وہ باہر کی طرف بھی دیکھے گی اِس لئے اُسے افغانستان تک محدود کرنا ضروری ہے۔