اللہ تو زندہ خدا ہے
زندگی میں بہت سارے معاملات ایسے آتے ہیں جنھیں ہم معجزات سمجھ لیتے ہیں ۔ہم ایسا اس لیے سمجھتے ہیں کہ ہماری عقل اور منطقی ذہن میں وہ معاملہ جم نہیں پاتا۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اسکو خلاف عقل کہتے ہیں ۔یہ کون لوگ ہیں جو معجزے کی سچائی کو تسلیم نہیں کرتے۔؟ وہ لوگ جو خدا کو زندہ نہیں سمجھتے، لیکن ہم سے پہلے جو لوگ تھے، صحابہ کرامؓ یا ان کے بعد آنے والے لوگ بھی، وہ ان چیزوں سے چونکتے تھے نہ حیران ہو کر انھیں معجزات کا نام دیتے تھے۔
مثال کے طور پر حضرت عمرو بن العاصؓ نے مصر سے حضرت عمرؓ کو خط لکھا تھا کہ دریائے نیل خشک ہو جاتا ہے اور پھر جب تک اس پر ایک نوجوان لڑکی کو قربان نہ کیا جائے، دریا میں پانی رواں نہیں ہوتا۔
عقل و دانش تو یہ کہتی ہے کہ عمرؓ بن خطاب، عمرو بن العاصؓ کو کہتے کہ تو ایک اچھا مسلمان ہے، کسی لڑکی کو قربان نہ کر بلکہ دو رکعت نمازِ استسقاء ادا کر اور اللہ سے دعا کر۔ اللہ نے چاہا تو بارش ہو جائے گی اور دریا بھر جائے گا۔
لیکن حضرت عمرؓ نے کیا کیا؟ ایک اور ہی بات کی جو بظاہر ایک انتہائی غیر منطقی بات لگتی ہے مگر اس میں انتہائی حکمت پوشیدہ ہے۔
حضرت عمرؓ نے دریا کو خط لکھا اور آپؓ دریا کو کیا کہتے ہیں؟
آپؓ دریا کو بھی اپنی مرضی کا آپشن (اختیار) دیتے ہیں......
اب غور کیجیے کہ یہی وہ اختیار، وہ آپشن ہے جس کے لیے تگ و دو کرنے میں ہم آج بھی بحث کرتے ہیں، کہ یہ معاملہ میرے بس میں ہے کہ نہیں؟
سو، عمرؓ نے دریا کو بھی آپشن دی۔ آپؓ نے دریا سے کہا ’’ اگر تو تُو اپنی مرضی سے بہتا ہے تو جو چاہے کر، اور اگر اللہ کی مرضی سے بہتا ہے، تو میں امیر المومنین عمر بن خطابؓ تجھے حکم دیتا ہوں کہ تُو بہہ!‘‘
اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ اس دریا میں سات گز پانی بہنا شروع ہوا اور آج تک دریائے نیل نے خشکی کا سامنا نہیں کیا........
لیکن کیا کسی شخص نے یہ سوال کیا کہ، اے عمرؓ، دریا آپؓ کی بات کیسے سنتا ہے، آپؓ کا حکم کیسے مانتا ہے؟
نہیں، کسی بھی جانب سے کسی قسم کی حیرت یا اچنبھے کا کوئی مظاہرہ سامنے نہیں آیا۔
اور پھر کتنی عجیب بات ہے کہ جب رسول اللہﷺ کے حجرے سے رات گئے صحابیؓ نکلا کرتے تھے تو ان کے آگے آگے چراغ جلتے تھے جو انھیں گھروں تک راستہ دکھا کر غائب ہو جایا کرتے تھے۔ (یہ بخاری شریف کی روایت ہے)
صحابہؓ نے تو کبھی یہ نہیں کہا کہ، یا رسول اللہ ﷺ !، دیکھئے کیسا معجزہ ہوا، کہ رات کو ہم جب باہر نکلے تو دو چراغوں نے ہوا میں آگے چل کر ہمیں رستہ دکھایا........
کوئی حیرت کا اظہار نہیں کیا گیا،صحابہؓ نے چراغوں کی مدد سے رستہ دیکھا اور گھروں کو پہنچے۔ پھر جب اللہ کے رسولﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپﷺ کی طرف سے بھی کسی حیرت کا اظہار نہیں ہوا۔
اتنی غیر معمولی بات ، جب انتہائی معمولی انداز میں رسول اللہﷺ تک پہنچی تو آپﷺ نے کیا سادہ سا جواب دیا، کہا ’’دیکھو! بات سنو! فرشتوں کو رات گئے تک تمھارا انتظار کرنا پڑتا ہے، تم مجلس سے جلدی اُٹھ جایا کرو..........‘‘
ایسا جملہ صرف وہی کہہ سکتا ہے جس کے لیے اللہ پاک ایک زندہ خدا ہو۔
اگر خدا کو زندہ نہ سمجھاجائے تو پھر انسان معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔