میڈیا اور قومی مفاد
ڈاکٹر مغیث الدین شیخ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب میں ڈین فیکلٹی آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز ہیں، جنہوں نے اس فیکلٹی میں تعلیم و تحقیق ، پیشہ وارانہ تربیت اور قومی مفاد اور میڈیا کے معیار پر بحث و مکالمہ کا جو معیار قائم کیا ہے وہ پاکستان کی کسی دوسری یونیورسٹی کو نصیب نہیں ہے۔28 سے 30 جون تک ان کی فیکلٹی نے پہلی بار ایک انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں ماس کمیونیکشن کی بعض عالمی سطح کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی ۔
کانفرنس میں امریکہ کے حامد مولانا ، اور ناروے کی پروفیسر الزبتھ کے مقالے پیش کئے گئے۔ نیپال کی ڈاکٹر مجو مشرا اور کمیونیکشن یونیورسٹی چین کے پروفیسر شان زو نے افتتاحی اجلاس سے لے کر اختتامی اجلاس تک تمام اجلاسوں میں شرکت کرکے علم و تحقیق سے اپنے گہرے شغف کا اظہار کیا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر نظام الدین نے کی جہکہ مہمان خصوصی یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے پروریکٹر ڈاکٹر ظفراللہ اور جرمنی کے سفیر تھے۔
افتتاحی تقریب کے بعد صبح اور شام کے دس تحقیقی اجلاسوں میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے سکالرز نے تین درجن سے زائد تحقیقی مقالے پیش کئے۔دوسرے دن مقابلے میں حصہ لینے والے طلبہ کی ڈاکومنٹری فلمز کی نمائش ہوئی ۔ جس میں ممتاز فلمساز سید نور اور خاور حیات مہمان خصوصی تھے۔ تیسرے روز اختتامی اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر نے شرکت کی جس کی صدارت پروریکٹر ڈاکٹر ظفراللہ نے کی۔اجلاس میں شرکا ء کو اسناد اور شیلڈز پیش کی گئیں۔
اسی روز دوپہر کے وقت ایک شاندار گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت سابق سیکرٹری امور خارجہ شمشاد احمد خان نے کی ، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ماڈریٹر تھے اور پروریکٹر ڈاکٹر ظفراللہ مہمان خصوصی۔گول میز کانفرنس میں اظہار خیال کرنے والوں میں مجیب الرحمن شامی کے علاوہ عارف نظامی، سلمان غنی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفے، رؤف طاہر، سجاد میر، پی،جے میر، قیوم نظامی،، سلمان عابد، رشید احمد خان بریگیڈئر فاروق، تنویر شہزاد اور سعید جعفری شامل تھے۔
مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ موضوع قومی مفاد کی نوعیت اور پاکستان کے قومی مفاد اور اس سلسلے میں میڈیا کے کردار سے متعلق ہے۔ پاکستانی تناظر میں دیکھا جائے تو آئین کا تحفظ اور اس کے تحت نظام کو چلانا ہی قومی مفاد ہے۔
اگر ایسا نہیں ہورہا تو پھر یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا نوٹس لے۔تمام ملکی ادارے آئین کے تحت کام کرنے کے پابند ہیں اگر کوئی ادارہ ایسا نہیں کررہا تو میڈیا کو اس کی نشاندہی کرنا چاہئیے۔
اگر قومی ادارے قومی مفاد میں آئین کے تحت کام نہیں کریں گے تو پھر میڈیا بھی آئین کا پابند نہیں رہے گا۔میڈیا قومی مفادکو آگے بڑھانے کے لئے بہت کچھ کرتا ہے، لیکن وہ ایسا نہ چوری چھپے کرتا ہے نہ اس کے لئے حکومت کی مرضی کی اسے ضرورت ہے۔ہم نے مارشل لاء بھی بھگتے ہیں ، جیلیں بھی کاٹی ہیں ، لیکن جتنی وحشت مجھے آج کل کے حالات سے ہے پہلے کبھی نہ تھی۔
ہم وہ نہیں کہہ سکتے جو دیکھ رہے ہیں اور محسوس کررہے ہیں۔ ہمیں یرغمال بنا لیا گیا ہے۔کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کون ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے۔؟ً یہاں جو لوگ خفیہ اشاروں پر فیصلے کرتے ہیں انہیں تھپکی ملتی ہے اور جو نشاندہی کرتے ہیں انہیں غدار کہا جاتا ہے۔ملک میں تماشے لگے ہیں۔خدا گواہ ہے کہ میں ملک کے متعلق کبھی ایسا خوفزدہ نہیں تھا جیسا اب ہوں۔
آپ قابل احترام ہیں ، وہ کام کریں جو آپ کو آئین نے دیا ہے،پارلیمنٹ دستور کے مطابق بنتی ہے جس سے حکومت بنتی ہے، اور اس حکومت نے ہی ملک کو چلانا ہوتا ہے۔
صدر مجلس شمشاد احمد خان نے کہا کہ ہمار ے ہاں قومی مفاد کے سلسلے میں ابہام پایا جاتا ہے۔ ہم نے برطانوی پارلیمانی نظام کو اپنایا ہوا ہے اور یہ نظام ایک ہزار سال کی روایات اور اقدار کی بنیاد پر قائم ہے۔ برطانیہ میں کسی تحریری آئین کی موجودگی کے بغیر بھی وہاں کی ہر چیز آئینی ہے۔ ، لیکن ہم تحریری آئین ہونے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرپارہے۔
ہم نے اب تک اتنے چہرے بدلے ہیں کہ کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ ہم کیا چیز ہیں اور کون سا چہرہ ہمارا حقیقی چہرہ ہے۔قومی مفاد کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ امریکہ کے قومی مفاد کو دیکھ لیں ان کے نزدیک عالمی سطح پر طاقت حاصل کرنا، ریاست کا مفاد اورذمہ داری ہی قومی مفاد ہے۔ قومی مفاد کو منجمد صورت میں نہیں دیکھنا چاہئیے، خارجہ پالیسی کا بھی کوئی مسودہ نہیں ہوتا۔ اس کام کے کرنے والوں پر ہی اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
میرے نزدیک قومی مفادکا تعلق ہماری بقا ہماری آزادی، سلامتی اور سا لمیت سے ہے، لیکن یہ بنیادی چیزیں کسی مقصد کے لئے ہیں اپنی ذات میں قومی مفاد مقصد نہیں ہوتا ۔
مقصد سیاسی اور اقتصادی استحکام ہوتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ جب تک ہم زندہ ہیں اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے کام کرسکتے ہیں۔ اپنی سالمیت و خود مختاری کا تحفظ ہماری اولین ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا دشمن ہمیں ختم کرنے کے لئے کیا سوچ رہا ہے اور اس کے کیا منصوبے ہیں۔ہماری فوج ہماری ضرورت ہی نہیں ہمارا سرمایہ ہے۔ ہمارا مسئلہ سول فوجی اختلاف نہیں ہے۔ جب اخلاص سے کام کرنے والی حکومت ملک میں آجائے گی یہ مسلہ کسی کو نظر نہیں آئے گا۔
ہمارے مسئلے الزام تراشیوں سے حل نہیں ہوں گے، پرانی باتیں چھوڑ دیجئے، ہم نے پچھلے ستر سال ضائع کئے ، آئندہ کے ستر سال کے متعلق سوچیں اور نہ بھولیں کہ ہمیں درپیش پہلا چیلنچ ملک کی سالمیت اور استحکام ہے۔امریکہ اور چین کی طرف ہی نہ دیکھیں اپنے آپ کا جائزہ لیں ، قرضوں کی لعنت سے چھٹکارا پائیں۔
قرضوں ، امداد اور بھیک سے چھٹکارا پائیں۔آپ کی اپنی ٹانگوں میں طاقت آجائے گی تو آپ کی خود مختاری کا تحفظ ہوجائے گا۔
لیفٹیننٹ جنرل(ر) غلام مصطفےٰ نے کہا کہ قومی مفاد نہیں بدلتا اس کے حصول کے طریقے بدلتے رہتے ہیں۔ ہم بنیادی مسائل کو چھوڑ کر ادھر ادھر کے معاملات کو اہمیت دیتے اور ان پر مباحث کے ذریعے معاملات کو الجھاتے رہتے ہیں۔
کارگل کشمیر کے سلسلے میں آگے بڑھنے کا منصوبہ تھا، لیکن اسے Reverse کردیا گیا۔ میڈیا امریکہ میں بھی اتنا ہی آزاد ہے جتنا کہ اسے اجازت دی گئی ہے۔اگر تمام ادارے اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے اخلاص سے کام کریں تو ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ پی۔جے ۔ میر نے کہا کہ قومی مفادایک بڑا ، ایشو ہے، لیکن ہم واقعات کی باتیں کررہے ہیں۔
ہمارے یقین کو کمزور کردیا گیا ہے ، ہمارے ہاں اتحاد نہیں ہے۔ قومی مفاد خارجہ پالیسی اور اقتصادی پالیسی پر عمل کرنا ہے،لیکن ہمارے ہاں ایک حکومت جس منصوبے پر اربوں روپے خرچ کرچکی ہوتی ہے نئی آنے والی حکومت اس منصوبے کو مکمل ہونے سے پہلے ختم کردیتی ہے۔ ہم نے پانی کے ذخائر نہیں بنائے ، جو ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، ہم نے اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی۔ہمارے ہاں صحیح لوگوں کو صحیح ملازمت نہیں دی جاتی ۔قیوم نظامی نے کہا کہ ہم قومی مفاد کی تعریف اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق کرتے ہیں۔ہمارے آئین سے ہر کسی کی ذمہ داریوں اور حقوق و فرائض کا تعین ہوجاتا ہے ہر کوئی اپنے دائرے میں صحیح کام کرے تو یہی قومی مفادہے۔
میڈیا کو آئین اور قانون کی بالادستی کا پرچار کرنا چاہئیے۔رؤف طاہر نے کہا کہ قومی مفاد جیسے الفاظ کا ہم نے اس کثرت اور اس خود غرضی سے استعمال کیا ہے کہ یہ الفاظ ہی اپنا مفہوم کھو بیٹھے ہیں۔سلمان عابد نے کہا کہ قومی مفاد کے سلسلے میں ہم اپنے اپنے رویوں کی وجہ سے دوسروں کی بات کو قومی مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ہمارے اذہان میں اپنے اپنے گروہ اور جماعت ہی کے مفاد ہوتے ہیں اور عوام کے مفادات ایک طرف رہ جاتے ہیں۔
اداروں کو قومی مفاد کے لئے فعال کیا جائے تو میڈیا قومی مفاد کے مطابق ہی کام کرے گا۔ہر کسی کو اپنی حدود میں رہنا چاہئیے ، ریڈ لائن کراس نہیں کرنا چاہئیے۔بریگیڈئر(ر) فاروق نے کہا کہ ہمیں حکومت اور مملکت کے مفاد میں فرق کو پیش نظر رکھنا چاہئیے،تاہم قومی مفاد مختلف ادوار میں مختلف ہوسکتا ہے۔ میڈیا کو اس بات کاخود بھی شعور ہے کہ ہمارا قومی مفاد کیا ہے ۔
قومی مفاد سے باقی ہر طرح کی سلامتی وابستہ ہے ہم اسے داؤ پر نہیں لگا سکتے۔ ڈاکٹر مغیث الدین نے کہا کہ امریکی میڈیا اپنی حکومتی پالیسی کے مطابق کام کرتا ہے ، ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ آیا انڈین میڈیا قومی مفاد کے خلاف رویہ اخیتار کرتا ہے؟ جو صحافی سی آئی اے کے رول پر ہوں ان سے کوئی قومی مفاد پیش نظر رکھنے کی توقع نہیں کرسکتا۔
سلمان غنی نے کہا کہ یہ بات اہم ہے کہ آنے والے حالات کچھ اچھا رخ اختیار کرتے نظر نہیں آرہے۔ قومی مفاد اور عالمی مفاد میں کشمکش ہے۔ ہمیں پوری جمہوریت اور پورے سچ کی ضرورت ہے۔ خدانخواستہ یہاں بھی کوئی ٹرمپ مسلط نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی صحافت کو بھی خلائی مخلوق کے ذریعے دبانے کی کوشش ہورہی ہے۔
اداروں کے استحکام ہی میں قومی مفاد ہے۔ سجاد میر نے کہا کہ حب الوطنی کے تصور کو بعض خود غرض لوگ اپنے مفاد میں استعمال کررہے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی جو قومی بقاکے لئے اہم ہے وہ کیا ہو؟امریکہ اپنے مفاد کے لئے پوری دنیا پر اپنی پالیسیاں ٹھونس رہا ہے ۔
اب اس سے اپنے قومی مفاد کو محفوظ کرناپوری دنیا کامسئلہ بن گیا ہے۔جب تک ہم قومی مفاد کے سلسلے میں ڈائیلاگ کے ذریعے اس معاملے میں واضح نہیں ہوجاتے اس وقت تک قومی مفاد کا لفظ خو د غرض گروہوں کی پناہ گاہ بنا رہے گا۔