برآمدگی کے بعد پولیس ’’ڈاکو ‘‘بن گئی

برآمدگی کے بعد پولیس ’’ڈاکو ‘‘بن گئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پولیس افسران و ملازمین پرمحکمانہ کاروائیوں کے اطلاق کے فقدان کے باعث آوے کا آوہ ہی بگڑا پڑا ہے، جن بعض پولیس افسران کی مثبت شہرت کے باعث پولیس کا اعتماد عوام پر کسی حد تک قائم ہے ان کیلئے بھی کرپٹ پولیس ملازمین کی طمع نفسانی شرمندگی کا باعث بن چکی ہے، ایماندار افسران کی ایمانداری کے بارہا اظہار کے باوجو د عوام کا تیزی سے پولیس پر سے اٹھتا اعتماد اختیارات کے ناجائز استعمال کا سبب ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اختیارات کے غلط استعمال کا عنصر ہمارے ادارتی سسٹم کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے طمع نفسانی کے پتلے چند پیسوں کے لالچ میں ہر حد سے گزر جانا خاطر میں نہیں لاتے قانون کی دھجیاں اڑانا ایسے عناصر کا معمول بن چکا ہے جنہیں اختیارات تو فرائض کی انجام دہی کی غرض سے دیئے جاتے ہیں مگر ان کا استعمال وہ ذاتی مفاد کی غرض سے کرتے دکھائی دیتے ہیں ، عام شہری ادارتی سسٹم کی خامیوں سے جس طرح نالاں اور بیزار ہے اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا کیونکہ جن معاشروں میں ادارتی اختیارات کااستعمال ذاتی مفادات کیلئے ہو وہ معاشرے اپنی اقدار کھو دیتے ہیں اور یہی حال آج ہمارے معاشرے کا ہے چند پیسوں کے پجاریوں نے آئین و قانون کوگھر لی لونڈی بنا رکھا ہے اور غضب یہ کہ بلا خوف و خطر وہ اپنی کارستانیاں انجام دیتے ہیں جو مانیٹرنگ کے فقدان اور محکمانہ سزاؤں کے اطلاق کے فقدان کا نتیجہ ہے ایسے واقعات سے ہمارا معاشرہ بھرا پڑا ہے جن میں فرد واحد کا مفاد آڑے آنے سے قانون کو دیوار سے لگا دیا گیا، اختیارات سے تجاوز کرنے کا ایک ایسا ہی واقعہ گزشتہ دنوں تھانہ بھکھی کی حدود میں پیش آیا جس کی روداد یوں ہے کہ شیخوپورہ فیصل آباد روڈ پر سفائر ملز کے قریب وا قع جواد موبائل شاپ اور ملک موبائل شاپس پر پانچ رکنی ڈکیت گینگ کے ارکان نے گن پوائنٹ پر لوٹ مار شروع کر دی اس دوران معمولی مزاحمت پر ملک موبائل شاپ کے مالک مقامی صحافی ملک محمد عارف کو ڈکیت گینگ کے ارکان نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا اور مبلغ پانچ لاکھ پچانوے ہزار روپے نقدی ، موبائل فونز اور دیگر اشیاء لوٹ کر فرار ہو گئے جس کا تھانہ بھکھی میں جواد موبائل شاپ کے مالک ملک اسد اللہ خاں وٹوکی تحریری درخواست پر مقدمہ نمبری 281/18 بجرم397 ت پ درج رجسٹرڈ کیا گیا جس کی تفتیش تھانہ میں تعینات سب انسپکٹر محمدیوسف ورک کو دی گئی جس نے ایک ماہ تک مقدمہ میں کسی بھی ملزم کو گرفتار نا کیااور علاقہ کے درجنوں افراد کو مختلف اوقات میں پکڑ کر لاکھوں روپوں کی دھیاڑیاں لگا کر چھوڑ تا رہا بعد میں تفتیشی سب انسپکٹر محمد یوسف ورک نے ایک خطر ناک گینگ کے تین ارکان جن میں احسان وغیرہ شامل تھے کو فیصل آباد سے گرفتار کیا اور مقدمہ کے مدعی اسد اللہ خاں وٹو کو بتائے بغیر ہی ایک خود ساختہ تتیمہ بیان تیار کر کے اور مدعی مقدمہ کے خود تتیمہ بیان پر جعلی دستخط کر کے تینوں خطرناک ملزمان کو اس مقدمہ میں نامزد کیا گیا اور دو روز کا مقامی عدالت سے ریمانڈ طلب کر کے ملزمان کے ساتھ بھاری رقم میں سودا طے کر نے کے بعد مثل مقدمہ میں ایک ضمنی تحریر کی گئی جس میں مدعی مقدمہ اورملزمان کے درمیان خود ساختہ بالمشافہ گفتگو کروائے جانے کا ذکر کیا گیا اور تحریر کیا گیا کہ بالمشافہ گفتگو کے دوران مدعی مقدمہ نے ملزمان سے قسم نیاں طلب کیا ہے اور ملزمان کی طرف سے جھوٹا اور بوگس قسم نیاں بھی تیار کر کے مثل میں لگا دیا گیا بعد میں مثل مقدمہ میں ملزمان کو جوڈیشل جیل بھیجنے کا ذکربھی کیا گیا جبکہ ملزمان جیل کی بجائے آزاد کر دیئے گئے اس وقت تک مدعی پارٹی کو کسی بھی معاملہ سے بے خبر رکھا گیا اور تفتیشی آفیسر یوسف ورک نے چند روز بعد ملزمان سے مبینہ ساز باز کر کے خود ہی عدالت میں ضمانتیں دائر کروائیں اور مقدمہ متذکرہ بالا کی اخراج رپورٹ بنا کر عدالت میں پیش کر دی جس میں لکھا گیا کہ مدعی پارٹی مقدمہ کی پیروی نا کرنا چاہتی ہے اس دوران معزز عدالت نے پولیس تفتیش سے مطمئن نا ہوتے ہوئے نائب کورٹ کو حکم دیا کہ مدعی مقدمہ کو فوری طلب کیا جائے جس پر عدالت کی طرف سے بذریعہ ٹیلی فون مدعی مقدمہ ملک اسد اللہ وٹو کو عدالت میں پیش ہونے کو کہاگیا مدعی کے عدالت میں پیش ہونے پر تمام حقائق کھل کر سامنے �آ گئے جس پر عدالت نے ملزمان کی ضمانت خارج کرتے ہوئے ملزمان کو جوڈیشل جیل بھیجنے کا حکم دیاتاہم تفتیشی یوسف ورک نے عدالت کو دھوکا دیتے ہوئے ملزمان کو بجائے جیل بھیجنے کے انہیں دوبارہ آزاد کر دیا جس کا مدعی پارٹی کو علم نا تھا تاہم مدعی پارٹی کے ارکان نے فیصلہ کیا کہ جیل میں جا کر ملزمان سے ملاقات کی جائے اور تمام حقائق سے آگاہی لی جائے جیل سے معلوم ہوا کہ تفتیشی یو سف نے انہیں جیل میں بھیجا ہی نہیں ہے اور تفتیشی سب انسپکٹر مکمل طور پر ملزمان سے ساز باز ہے اور مقدمہ کو مکمل خراب کرنے کے درپے ہے جس پر مقدمہ متذکرہ بالا کے مدعی اسداللہ خاں وٹو نے ڈی پی او شیخوپورہ سردار غیاث گل کو ایک تحریری درخواست گزاری ہے جس میں تفتیشی کی تمام تر کارستانیوں کا ذکر کیا گیا ہے جس پر ڈی پی او نے یوسف ورک سب انسپکٹر کو تمام ریکارڈ سمیت ڈی پی او آفس طلب کیا اور مدعی پارٹی سے گفتگو کروانے کے بعد تمام حقائق سے با خبر ہونے کے بعد مذکورہ سب انسپکٹر کو فوری شوکاز جاری کرتے ہوئے ملزمان کو ہر حال میں گرفتار کر کے ڈی پی او آفس پیش کرنے کے احکامات صادر فرمائے ہیں بصورت دیگرمعطل کر کے سب انسپکٹر کے خلاف مقدمہ کا اندراج کر کے حوالات میں بند کرنے کی وارننگ دی ہے دوسری طرف مدعی مقدمہ اسداللہ وٹو کی طرف سے مقامی معزز عدالت کی میں ایک تحریری درخواست گزاری گئی ہے جس میں عدالت کو گمراہ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے جس پر عدالت نے تفتیشی مذکورہ کو دو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے فوری جواب طلب کیا ہے معلوم ہوا ہے کہ پولیس کی طرف سے چھوڑے جانے والے ملزمان لاتعداد سنگین مقدمات میں مطلوب تھے اور عادی ڈکیت تھے، دریں حالات تھانہ بھکھی کے سب انسپکٹر یوسف ورک کا اختیارات سے یوں تجاوز کرنا غیر معمولی واقعہ ہے جس کا متعلقہ حکام کو نوٹس لیکر کڑی محکمانہ کاروائی عمل میں لانی چاہئے تھی تاکہ آئندہ کوئی پولیس افسر یا ملازم ایسی لاقانونیت کی جرات نہ کرسکے جبکہ اس واقعہ کے ملزمان بھی کسی صورت قابل معافی نہیں انہوں نے جس قبیح جرم کا ارتکاب کیا اس کی قرار واقعی سزا انہیں ملنی چاہئے تاکہ عام شہری کا پولیس پر سے اٹھتا اعتماد بحال ہوسکے ، واضح کرتا چلوں کہ ڈی پی او ڈاکٹر سردار غیاث گل نے اس واقعہ کی انکوائری رپورٹ طلب کرلی ہے دیکھنا یہ ہے کہ آیا انکوائری پر مامور پولیس افسران انہیں رپورٹ پیش کرتے وقت کن امور کی نشاندہی اور کن عوامل کو نظر انداز کرتے ہیں تاہم مذکورہ تحریر کے ذریعے ہم واقعے کے تمام پہلوؤں سے عوام کو آگاہ کررہے ہیں توقع ہے کہ پولیس اپنا مثبت کردار ادا کرے گی کیونکہ اس میں خود پولیس کا امیج بہتر ہوگا اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے پولیس ملازم کے خلا ف کاروائی مشعل راہ ثابت ہوگی۔

مزید :

ایڈیشن 2 -